آرٹیکل چھ کے داروغے جواب دیں

آرٹیکل چھ نہ ہوا، درویش کا تصرف ہو گیا۔ مائل بہ کرم ہوا تو ماں کی طرح مہربان ہو گیا، برہم ہوا تو کسی کوتوال کی تعزیر کا کوڑا بن گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل ہو جائیں تو 60 دن کے اندر اندر انتخابات ہونا لازم ہے اور اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے ختم ہو تو 90 دن کے اندر (اے ایف پی)

 ضمنی اور عام انتخابات اگر آئین میں دی گئی مدت کے دوران نہ کرائے گئے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟

آئینی ماہرین اس سوال کے جواب میں چہرے پر چار بر اعظموں کی سنجیدگی طاری کر کے جواب دیتے ہیں کہ اس صورت میں آرٹیکل چھ لاگو ہو گا اور حکومت پر سنگین غداری کا مقدمہ قائم ہو جائے گا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

بلغمی مزاج قانونی ماہرین کی طبع جب رواں ہوتی ہے تومیرے جیسے طالب علموں کو گدگدا دیتی ہے۔ آرٹیکل چھ نہ ہوا، درویش کا تصرف ہو گیا۔ مائل بہ کرم ہوا تو ماں کی طرح مہربان ہو گیا، برہم ہوا تو کسی کوتوال کی تعزیر کا کوڑا بن گیا۔

آرٹیکل چھ کے جملہ داروغے اگر اس طالب علم کی جسارت معاف کر سکیں تو میرے ہتھیلی پر کچھ سوال رکھے ہیں اور ایک طالب علم کے طور پر میں رہنمائی کا طالب ہوں۔

آرٹیکل چھ کا اطلاق صرف قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر پر کیوں ہو گا؟ بلدیاتی انتخابات کی بات بھی آئین میں کی گئی ہے اور بلدیاتی انتخابات بروقت کروانا بھی اسی طرح آئینی تقاضا ہے جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سالوں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے اور کسی کو آرٹیکل چھ یاد نہیں آتا؟

بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد حکومت یونین کونسلز میں اضافہ کر دیتی ہے اور پھر مختلف بہانوں سے دارالحکومت میں ان انتخابات کو ملتوی کر دیا جاتا ہے، آرٹیکل چھ کسی کو یاد نہیں آتا۔ کیوں؟

مقامی حکومتیں بھی آئین کے تحت بنتی ہیں۔ ان کے پاس بھی آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک وزیر اعظم انتظامی حکم نامے سے یہ حکومتیں معطل کر دیتا ہے اور ان کا آئینی مینڈیٹ پامال کر دیتا ہے  لیکن کسی کو یاد نہیں آتا کہ یہ بھی آئین سے انحراف ہے اور اس پر آرٹیکل چھ لگنا چاہیے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل ہو جائیں تو 60 دن کے اندر اندر انتخابات ہونا لازم ہے اور اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے ختم ہو تو 90 دن کے اندر۔ سوال اب یہ ہے کہ اگر اس مدت سے انحراف سنگین غداری ہے تو کیا آئین میں کہیں اوربھی ایسا کوئی اہتمام موجود ہے یا نہیں اور اگر موجود ہے تو کیااس کی خلاف ورزی بھی آئین شکنی کہلائے گی؟

آئین کے آرٹیکل 251 میں جہاں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ 15 سال کے اندر اندر اردو کو دفتری اور سرکاری زبان بنانے کے انتظامات کیے جائیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ یہ 15 سال کی مدت کب کی ختم ہو چکی؟ کیا وجہ ہے یہاں کسی کو آرٹیکل چھ یاد نہیں آتا؟

آئین نے سود کے خاتمے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ اس ہدایت پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ کیا وجہ ہے یہاں آرٹیکل چھ کی کسی کو کبھی یاد نہیں ستائی؟

آئین نے ’پرائیویٹ آرمی‘ کی ممانعت کر رکھی ہے۔ کیا کسی کو کچھ یاد ہے وطن عزیز میں لشکر، جیش، حزب سمیت کتنے ناموں سے کتنے نجی لشکر گھومتے پھرتے تھے۔ کیا وجہ ہے کبھی کسی کو آرٹیکل چھ کا خیال نہیں آیا؟

آئین نے لوگوں کو بہت سے بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں۔ یہ حقوق یہاں جی بھر کر پامال کیے جاتے ہیں۔ کیا یہ آئین شکنی نہیں اور کیا اس پر آرٹیکل چھ نہیں لگنا چاہیے؟

آئین کے آرٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری برابر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کہیں بھی یہ برابری موجود  نہیں ہے۔ یہاں قدم قدم پر اہتمام کے ساتھ طبقاتی تقسیم قائم کی گئی ہے۔ کیا اس پر بھی آرٹیکل چھ لگتا ہے اور کیا یہ بھی آئین کی خلاف ورزی ہے؟

آئین کے آرٹیکل 23 اور 24 نے لوگوں کی پراپرٹی کے تحفظ کی بات کی ہے لیکن یہاں اشرافیہ کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے غریبوں سے گاؤں کے گاؤں سرکاری سرپرستی میں چھین لیے جاتے ہیں۔ اس آئین شکنی  پر آرٹیکل چھ کیوں نہیں لگتا؟

آئین کا آرٹیکل 19 آزادی رائے کو یقینی بنانے کی بات کرتا ہے لیکن یہاں 1870 کے ’سیڈیشن لا‘ کے ذریعے ہم نے آئین کا یہ آرٹیکل پامال کر رکھا ہے۔ کیا یہ آئین شکنی نہیں ہے اور کیا اس پر بھی آرٹیکل چھ کا مزاج برہم ہوتا ہے یا نہیں؟

آئین  کے آرٹیکل 19 اے نے شہریوں کو معلومات کے حصول کا حق دے رکھا ہے لیکن یہاں ہر دوسری معلومات کو قومی راز قرار دے کر چھپایا جاتا ہے حتی کہ توشہ خانے کی معلومات بھی نہیں دی جاتیں۔ کیا یہ بھی آئین شکنی نہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئین فیئر ٹرائل کی بات کرتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا یہ حق آج تک شہریوں کو مل سکا؟ نہیں ملا تو اس پر آرٹیکل چھ کی طبع نازک رواں کیں نہیں ہوتی؟

آئین انسانی جان کی حرمت کی بات کرتا ہے یہاں لوگ سڑکوں پر پولیس کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں اور قاتل با عزت بری ہو جاتے ہیں۔ آرٹیکل چھ کیوں نہیں انگڑائی لیتا؟

آئین کہتا ہے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم تمام قوانین باطل ہوں گے لیکن یہاں ایسے تمام نو آبادیاتی قوانین پوری قہر سامانی کے ساتھ نافذ ہیں۔ کیا یہ آئین شکنی نہیں؟

کیا آئین کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ اقلیت نما سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کیا جائے؟ یہ مفادات محفوظ ہیں تو آئین کی بالادستی قائم ہے۔ یہ مفادات خطرے میں ہیں تو آئین پامال ہو رہا ہے؟

سوالات کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ فی الوقت اسے یہیں ختم کرتے ہیں۔ آرٹیکل چھ کے داروغے اگر انہی چند سوالات پر رہنمائی فرما دیں تو عین نوازش ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر