آرٹیکل 63 اے: حکومتی اتحاد کا سپریم کورٹ سے فل بینچ کا مطالبہ

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق اتحادی حکومت آئین کے آرٹیکل 63۔اے کی تشریح سے متعلق کیسز کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی خاطر پیر کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گی۔

پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی جماعتوں پی پی پی ، پی ایم ایل ن اور جے یو آئی کے سینیئر لیڈر آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن آٹھ مارچ، 2022 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اتوار کو ایک بیان جاری کیا ہے جس کے  مطابق اتحادی حکومت نے منحرف ارکان اسمبلی کی حیثیت کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 63۔اے کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی خاطر پیر کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 63۔اے کی تشریح کا معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب جمعے کو پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے ایوان میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مسلم لیگ ق کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کی رائے میں مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی نے پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا۔

ق لیگ کے ووٹوں کو مسترد کیے جانے کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے کامیاب قرار پائے تھے۔

اپنے بیان میں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اب حکومتی اتحاد نے اس ضمن میں باضابطہ طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

توقع ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل لیڈر پیر کی صبح ساڑھے 10 بجے ایک پریس کانفرنس کے بعد اپنی درخواست سپریم کورٹ لے کر جائیں گے۔

مریم اورنگزیب نے بیان میں مزید کہا کہ پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی سپریم کورٹ جائیں گی جبکہ ایم کیو ایم، بی این پی، بی اے پی اور دیگر اتحادی جماعتیں بھی اس پٹیشن کا حصہ ہوں گی۔

بیان کے مطابق تمام جماعتوں کے وکلا سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف رکھیں گے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63۔اے کی تشریح کے خلاف بار کی نظر ثانی کی درخواست پر فل کورٹ میں سماعت کرے۔

احسن بھون کے بقول: ’سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کے خلاف نظرثانی اپیل مقرر کر کے سنی ہوتی تو یہ ابہام  پیدا نہ ہوتا۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بار ایسوسی ایشن کی پٹیشن  موجود ہے۔‘

احسن بھون نے مزید کہا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ عوامی مفاد میں بار کی پٹیشن کو سنا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63۔اے پر رائے پورے بینچ کے اتفاق رائے پر مبنی نہیں تھی۔ آرٹیکل 63۔اے پر مزید وضاحت ضروری ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے سے گریز کریں۔ ججز کو بھی متنازع نہ بنایا جائے اورآئینی معاملات پر فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیا جائے۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا استحقاق ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے حکومتی رہنماؤں کے خلاف نااہلی کی کارروائی شروع کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فواد چوہدری کا کہنا تھا ’پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر طلبی کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر پیر کو مسلم لیگ ن نے عدالتی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی کو دوسرے طریقوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج لاہور میں پریس کانفرنس میں کہا کہ آرٹیکل 63 ۔ اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی درخواست یا جمعے کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب یا پی ٹی آئی کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کی اپیلوں جیسے معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے بنیادی معاملہ آرٹیکل 63-اے کی تشریح کا ہے جس کے ساتھ یہ تمام معاملات حل ہو جائیں گے۔‘

وزیر قانون نے حمزہ شہباز کے حوالے سے کہا کہ اگر کسی قانونی فیصلے کے ذریعے عوام کے نمائندے کو گھر بھیج دیا گیا ہو تو ضروری ہے کہ انصاف، شفافیت اور آزادی کا تقاضا پورا کرتے ہوئے فل کورٹ بینچ معاملے کی سماعت کرے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری اس ٹرینڈ میں مسلم لیگ ن کے ملوث ہونے کے الزامات کو بھی مسترد کردیا جس میں سپریم کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ریاستی اداروں کا بے حد احترام کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان