بادی النظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے سر پر گہرے بادل ہیں: چیف جسٹس

عدالت کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آج سے حمزہ شہباز ایک بار پھر عبوری وزیر اعلیٰ ہوں گے اور صرف ایک ٹرسٹی کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔

جمعہ 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد حکومتی اراکین نے حمزہ شہباز کو کندھوں پر اٹھا لیا (تصویر: حمزہ شہباز/ فیس بک)

سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ نے حمزہ شہباز کو بطور عبوری وزیر اعلیٰ بحال کر دیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ  ہفتے کو سماعت کی اور اس کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا ہے۔

عدالت کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آج سے حمزہ شہباز ایک بار پھر عبوری وزیر اعلیٰ ہوں گے اور صرف ایک ٹرسٹی کے طور پر فرائض انجام دیں گے کیونکہ صوبے کو بغیر گورننس کے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر اور پنجاب حکومت کو تفصیلی تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جاری کیا گیا اصل خط بھی آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہی کی جانب سے جمعہ کی رات دائر درخواست پر سماعت کرتے کی۔

یہ درخواست ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی اس رولنگ کے خلاف دائر کی گئی تھی جس میں انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو ملنے والے ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کر کے حمزہ شہباز کو کامیاب قرار دیا تھا۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ ڈپٹی سپیکر نے چوہدری شجاعت کی جانب سے مسلم لیگ ق کے اراکین کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے خط پر رولنگ دی اور اس میں سپریم کورٹ کے پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے پر انہیں گنتی میں شمار نہ کرنے کا حوالہ دے کر انہیں مسترد کرنے کی وجہ بتائی۔

اس پر عدالت نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پیش ہو کر سپریم کورٹ کا وہ آرڈر ہمیں بھی دکھائیں جس کا تذکرہ رولنگ میں کیا گیا ہے۔

عدالت کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کو بھی پیش ہونے کا کہا گیا تھا تاہم وہ خود تو پیش نہ ہوئے تاہم ان کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیے اور کہا کہ ’میری عدالت سے درخواست ہے کہ خود کو سپیکر کی جگہ پر رکھیں اور اس آرڈر کو پڑھیں تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ سپیکر نے عدالتی حکم کو غلطی سے اس طرح سمجھا؟‘

جس پر عرفان قادر نے جواب دیا کہ ’میری رائے بھی یہی ہے کہ سپیکر نے سپریم کورٹ کی رولنگ کو درست سمجھا ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’اگر فرض کر لیں کہ سپیکر کی رولنگ غلط تھی تو پھر اگلا قدم کیا ہوگا؟‘ اس پر وکیل نے کہا ’اس پر ہم تحریری جواب بھی دیں گے۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ خط پیش کیا جائے تاکہ ہم بھی دیکھ سکیں جس کی بنیاد پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی اس خط میں کیا لکھا ہے۔

چیف جسٹس نے حمزہ شہباز کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے قرار دیا کہ ’آپ کے موکل جس آفس کو ہیڈ کر رہے ہیں اس پرگہرے بادل ہیں۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ شمار نہ کیے جائیں۔ عدالتی فیصلے میں پارلیمانی لیڈر کا کردار واضح ہے، پارلیمانی لیڈر کی ہدایات پرعمل نہ کرنے والے کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں کیا ابہام ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب حکومت کے وکیل نے یہ کیس ’لوٹوں‘ کی اپیل کے ساتھ سننے کی استدعا کی تھی جو مسترد کردی گئی۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر نے ہمارے فیصلے کی خلاف ورزی کی،  ہمارے 17 مئی کے فیصلے پر تنقید نہ کریں، اس فیصلے پر کسی نے اعتراض کرنا ہے تو نظرثانی کیس میں آکر بات کرے، 17 مئی کو لوٹوں کا ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا فیصلہ آیا تھا۔‘

اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ ’ہم نے 63 اے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہے۔ اگر ہم ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اڑا دیتے ہیں تو نتائج کیا ہوں گے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے ہمارے فیصلے کا غلط مطلب لیا ہے۔ لہذا اس اہم نوعیت کے کیس کی سماعت دونوں فریقین کا موقف سن کر جلد فیصلہ سنایا جائے گا، پیر تک سماعت ملتوی کی جاتی ہے اس وقت تک حمزہ شہباز عبوری وزیر اعلی برقرار رہیں گے، تاہم بڑے اقدامات میں محتاط رہیں گے۔‘

خیال رہے کہ 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق ہونے والی ووٹنگ کے بعد ڈپٹی سپیکر نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ کو انہی کی جماعت مسلم لیگ ق کے اراکین کی جانب سے ملنے والے ووٹوں کو مسترد کر دیا تھا۔

ڈپٹی سپیکر نے اس کی وجہ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا وہ بتایا تھا جس میں ان کے مطابق چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ق کے اراکین کو حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ کی ہدایت کی تھی۔

اس سب کے بعد 22 جولائی کی رات ہی چوہدری پرویز الہیٰ نے ایک درخواست سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں جمع کروا دی تھی جس پر ہفتے کو سماعت ہوئی۔

حکمران اتحاد کا مطالبہ

پاکستان کے حکمران اتحاد نے ایک مشترکہ متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت فل کورٹ میں کی جائے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‏حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں چیف جسٹس پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی سماعت فل کورٹ کرے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ بہت اہم، قومی اور آئینی معاملہ ہے اس لیے اس کی سماعت فل کورٹ میں کی جانی چاہیے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سلسلہ اس عدالتی فیصلے سے شروع ہوتا ہے جس کے ذریعے آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ دینے والوں کے ووٹ نہ گننے کا حکم جاری ہوا۔‘

انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’آج اس کی ایک نئی تشریح کی جا رہی ہے تاکہ اب بھی اسی لاڈلے کو فائدہ پہنچے جسے کل پہنچا تھا! نا منظور!‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک سری لنکا جیسی صورت حال سے زیادہ دور نہیں اور لوگ سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔

عمران خان نے بھی ایک سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا کہ ’30 برس سے زائد کی مدت میں پاکستان کی لوٹ کھسوٹ سے جمع کی گئی اپنی غیرملکی دولت بچانے کے لیے زرداری و شریف مافیا نے تین ماہ میں ہی ملک کو سیاسی و اقتصادی طور پر گھٹنوں کے بل گرا دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست