پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کئی لوگ مشرف کو اپنا مسیحا کیوں مانتے ہیں؟

جنرل مشرف کے آئین سے متصادم اقدامات اور ان کی ذات سے جڑے کئی تنازعات کے باوجود انہوں نے کچھ کام ایسے کیے جن کی بنا پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عام لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان کے بارے میں مثبت رویہ رکھتی ہے۔

فروری 5، 2000: پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر اور وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کے ساتھ (اے ایف پی)

پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار پر قبضے کے ایک سال اور چند دن بعد 23 اکتوبر 2000 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم پہنچے جہاں انہوں نے جاگراں کے مقام پر ایک پن بجلی منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب وادی نیلم کا علاقہ لائن آف کنٹرول کے اس پار سے ہونے والی گولہ باری کا براہ راست نشانہ تھا۔ گولہ باری سے متاثرہ لوگوں میں حکومت مخالف شدید غم و غصہ تھا۔ اس دورے کے دوران ان کا خاطر خواہ استقبال نہیں ہوا بلکہ ان کے آنے سے چند روز  قبل گولہ باری کے متاثرین نے احتجاج بھی کیا۔ اس احتجاج کے پیش نظر جاگراں کے علاقے میں جہاں جنرل مشرف کے ہیلی کاپٹر نے اترنا تھا اس تنگ سی وادی کو جانے والی واحد کچی سڑک کٹن کے مقام پربند کر دی گئی تھی۔

اپنے نو سالہ دور اقتدار میں جنرل مشرف کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا جس میں وہ وادی نیلم کی سرزمین پر اترے۔ بعد ازاں دوران زلزلہ چند مرتبہ انہوں نے وادی نیلم کا صرف فضائی جائزہ لیا۔ اسی طرح کے ایک جائزے سے واپسی کے دوران آٹھ اکتوبر 2007 کو ان کی حفاظت پر مامور ایک ہیلی کاپٹر پٹہکہ کے مقام پر گر کر تباہ ہوا۔

جنرل مشرف کے وادی نیلم کے اس واحد دورے کے دوران مقامی لوگوں نے جس مطالبے پر سب سے زیادہ زور دیا وہ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی یا پھر ان علاقوں سے سول آبادی کا انخلا تھا۔

جولائی 2001 میں جنرل مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر سمیت دیگر امور پر بات چیت کا آغاز ہوا۔ بالاخر نومبر 2003 میں دونوں ممالک کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں 14 سال سے جاری گولہ باری کا تبادلہ رک گیا اور وادی نیلم سمیت لائن آف کنٹرول کی دونوں اطراف بسنے والے لاکھوں کشمیریوں کی زندگی میں سکون لوٹنا شروع ہوا۔

سیز فائر معاہدے کے بعد لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں گولہ باری سے تباہ سرکاری اور نجی املاک کی تعمیر نو اور مرمت شروع ہوئی۔ 14 سال تک بند رہنے والی شاہراہ نیلم کھل گئی۔ گولہ باری کے دوران ہجرت کر جانے والے خاندان واپس لوٹنا شروع ہوئے، کاروباری مراکز اور تعلیمی اداروں کی رونقیں بحال ہوئی۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں نے بھی وادی نیلم کا رخ کرنا شروع کیا جس سے اس علاقے میں تباہ حال لوگوں کی معیشت بحال ہونا شروع ہوئی۔

ان اقدامات کے بعد کشمیری عوام خاص طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب بسنے والے عام لوگ جنرل مشرف کو اپنا مسیحا سمجھنے لگے۔

وادی نیلم کے شہری حنیف اعوان کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد اگر جنرل مشرف کبھی وادی نیلم کا دورہ کرتے تو یقیناً ان کے خلاف احتجاج کے بجائے ان کا تاریخی استقبال ہوتا۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کہتے ہیں کہ ’سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کشمیریوں کے عظیم محسن تھے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات سے کشمیریوں کو براہ راست ریلیف مہیا ہوا۔‘

سیزفائر معاہدے کے اثرات بتدریج ظاہر ہونا شروع ہوئے امن کی بحالی کے بعد 2005 میں سرینگر مظفرآباد بس سروس شروع ہونے کے بعد لائن آف کنٹرول کے آر پار ویزہ اور پاسپورٹ کے سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ منقسم کشمیری خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملا اور پھر یہ سلسلہ لائن آف کنٹرول کو کئی مقامات سے کراسنگ کے لیے کھولنے کے ساتھ ساتھ 2007 میں مال کے بدلے مال کی تجارت کے منفرد عمل تک پھیلا۔

صحافی و تجزیہ کار ارشاد محمود سردار عتیق احمد خان کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کشمیری پرویز مشرف کو ہمیشہ یاد رکھیں گے کیونکہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس پیش رفت کی۔ حتیٰ کہ معاملہ حل کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک شروع کر دی گئی۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا دورہ پاکستان منسوخ ہو گیا۔ لیکن انہوں نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کرائی۔ ہزاروں خاندانوں کو راحت ملی۔ لائن آف کنٹرول سے بس سروس شروع کر کے کشمیریوں کو باہم ملنے کا موقع دیا۔‘

تنازع کشمیر جنرل مشرف کے دور میں فلیش پوائنٹ بنا رہا اور دو طرفہ طور پر اس معاملے میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔ خاص طور پر جنرل مشرف کا چار نکاتی فارمولا، جس میں کشمیر سے فوجوں کے بتدریج انخلا، کشمیر کی سرحدوں میں کوئی تبدیلی کیے بغیر کشمیر کو آپس میں ملنے کے مواقع دینا، خود مختاری دیے بغیر کشمیر کو تمام منقسم علاقوں میں اپنی نمائندہ حکومت کے قیام کا حق دینا اور کشمیریوں کی شمولیت سے پاکستان اور انڈٰیا کا مشترکہ نگران میکنزم ترتیب دینا شامل تھے۔

کشمیر میں سرگرم عسکری اور نیم عسکری گروہوں کی عملی حمایت سے ہاتھ کھینچا گیا اور بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیریوں کے آپس میں ملنے اور تجارت کے کئی دروازے کھولے گئے۔

کشمیری صحافی فرحان خان کے مطابق: ’مشرف کا فارمولا بہرحال دہائیوں سے جمی اس برف کو توڑنے کی جانب پہلا قدم ہو سکتا تھا۔ اگر اس فارمولے پر عمل ہونے دیا جاتا تو آج کشمیر کی تاریخ قدرے مختلف ہوتی۔ میرے خیال میں انڈیا کو پانچ اگست 2019 والی واردات کا موقع نہ ملتا۔ لیکن کشمیر پالیسی کے حساس معماروں نے ضد، انا اور مفادات کی بنیاد پر اس پیش رفت کو کوڑے دان کی نذر کرنا ضروری سمجھا۔‘

 تاہم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما رفیق ڈار جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے اور سیز فائر معائد پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چار نکاتی فارمولے سے جہاں آزادی پسند کشمیری قیادت تقسیم ہوئی وہاں انڈیا بھی اس معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیا۔ جموں کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں سے باہر نکل کر مسئلہ کشمیر پر آؤٹ آف بکس حل تلاش کرنا جنرل مشرف کی طرف سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ تھا۔ تاہم انڈیا نے کوئی خواطرخواہ مثبت جواب نہیں دیا اور نہ ہی بین الاقوامی برادری نے اس معاملے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ: ’جنرل مشرف کے دور حکومت میں ہی اعتماد سازی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ انڈیا نے جنگ بندی لائن پر باڑ لگانا شروع کیا جو ریاست کی تقسیم کے عمل کا نقطۂ آغاز سمجھا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت ریاست کی جملہ سیاسی جماعتیں اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔‘

بھارت کے ساتھ بیک چینل رابطوں کی بحالی اور اس کے نتیجے میں ہوئے اقدامات کے اثرات ابھی عام کشمیریوں تک پہنچنا شروع ہوئے تھے کہ 2005 کا زلزلہ آ گیا۔ یہ جنرل مشرف کی حکومت کا ایک اور امتحان تھا۔

حکومت کسی بھی طرح سے اس امتحان سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس وقت پاکستان میں کوئی سیاسی حکومت ہوتی تو شاید اتنی بڑی تباہی سے نہ نمٹ سکتی مگر جنرل مشرف نے عالمی ڈونر کانفرنس بلا کر پوری دنیا کو زلزلہ متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں شامل کیا۔

ارشاد محمود کہتے ہیں کہ: ’زلزلہ آیا تو جنرل مشرف ایک مرد بحران کی طرح بروئے کار آئے اور زلزلہ متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس خطے کے خدوخال کو ہی بدل ڈالا۔‘

زلزلہ کے بعد قوم سے خطاب میں جنرل مشرف نے کہا تھا کہ ’زلزلہ میں مرنے والے آپ کے عزیزوں کو واپس تو نہیں لا سکتا تاہم میرا آپ سے یہ وعدہ ہے کہ تباہ شدہ علاقوں کا جو نقشہ آئندہ چند سالوں میں آپ  دیکھیں گے وہ آپ کے تصور سے بھی آگے ہو گا۔‘

سردار عتیق احمد خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’2005 کے خوفناک زلزلے کے بعد جس تیزی سے متاثرین زلزلہ کی بحالی اور آبادکاری کا کام انھوں نے کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ بعد کی حکومتیں اس چلتے ہوئے کام کو بھی مکمل نہیں کرسکیں اور باقی ماندہ کام آج تک نامکمل اور ادھورا ہے۔‘

جنرل مشرف نے زلزلہ میں مرنے والوں کے خاندان کے لیے فی کس ایک لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے فی کس 50 ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اس طرح زلزلہ سے مکمل تباہ مکانات کے کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ روپے اور جزوی تباہ مکانات کے لیے 50 ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا جسے بعد ازاں بڑھا کر بالترتیب ڈیڑھ لاکھ روپے اور 75 ہزار سے ایک لاکھ روپے فی گھر کر دیا گیا۔

اٹھمقام کے رہائشی جاوید اسد اللہ کہتے ہیں کہ یہ رقم اس وقت کے لحاظ سے ایک معقول رقم تھی اور ایک چھوٹے خاندان کے لیے اس رقم سے با آسانی ایک گھر تعمیر ہو سکتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ ’اس رقم کی بروقت فراہمی اور نگرانی کے عمل می فوج کی شمولیت کے باعث اس کے کے اثرات جلد نمایاں ہونا شروع ہوئے اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں نئے گھر تعمیر ہوئے اور لوگوں کے رہنے سہنے کا انداز یکسر بدل گیا۔‘

اگرچہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے فنڈز میں بے شمار مالیاتی اور انتظامی بے قاعدگیاں ہوئی اور کئی طے شدہ منصوبے آج 18 سال بعد بھی نا مکمل ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امدادی پروگرام کے فوائد بڑی حد تک براہ راست عوام تک پہنچے۔

جنرل مشرف کے آئین سے متصادم اقدامات اور ان کی ذات سے جڑے کئی تنازعات کے باوجود لائن آف کنٹرول پر فائر بندی اور زلزلہ متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں ان کے کردار کی بنیاد پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عام لوگوں کی ایک کثیر تعداد انہیں اپنا مسیحا سمجھتی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب ان کے خلاف غداری کا مقدمہ سننے والی خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو موت کی سزا سنائی تب بھی ان علاقوں کے لوگوں نے دکھ کا اظہار کیا اور آج جب جنرل مشرف کی موت پر بھی ان لوگوں میں سوگ کا سماں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست