کیا سابق فوجی صدر پرویز مشرف معرکہ کارگل کے معمار تھے؟

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے بھارت میں 2018 میں شائع ہونے والی کتاب ’سپائے کرانکلز‘ میں بتایا کہ کارگل ’جنرل پرویز مشرف کا طویل عرصے سے جنون تھا۔‘

سابق صدر اور فوجی حکمران پرویز مشرف چار دسمبر 2014 کو کراچی میں یوتھ پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف 80 سال کی عمر میں دبئی میں انتقال کر گئے۔ وہ پاکستان کی سیاسی اور علاقائی سیاست پر اپنی متنازع پالیسیوں کی وجہ سے طویل عرصے تک یاد رکھے جائیں گے۔ بھارت کے خلاف معارکہ کارگل کے وہ معمار مانے جاتے ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے بھارت میں 2018 میں شائع ہونے والی کتاب ’سپائے کرانکلز‘ میں بتایا کہ کارگل ’جنرل پرویز مشرف کا طویل عرصے سے جنون تھا۔‘

کارگل بھارت کے زیر اتنظام لداخ علاقے کا ایک ضلع ہے۔ 1999 میں مئی سے جولائی تک ہمالیائی پہاڑیوں میں لڑی جانے والی کارگل جنگ کے دوران دونوں ممالک کے سینکڑوں فوجی مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف عام شہریوں کا بھی کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو واپس اپنی جگہ پر دھکیل کر یہ جنگ جیت لی تھی۔ اب وہ ہر سال 26 جولائی کو اس ’جیت‘ کی خوشی اور یاد میں ’کارگل وجے دیوس‘ مناتا ہے۔

پاکستان کو بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ میں کارگل سیکٹر میں ایک اہم سپلائی لائن پر نظر رکھنے کی برتری حاصل ہوئی تھی۔ یہ عسکری برتری 1971 کی جنگ میں پاکستان نے کھو دی تھی۔

جنرل اسد درانی جو 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لے چکے تھے کہتے ہیں کہ 71 میں دونوں ممالک نے آخر میں جو معاہدہ کیا اس کے مطابق پاکستان کو چھمب سیکٹر جبکہ بھارت کو کارگل کی چوٹیاں ملیں گی۔ ’مشرف پر انہیں واپس لینے کا جنون سوار تھا۔‘

’بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار میں انہوں (مشرف) نے جو اس وقت ٹو سٹار جنرل تھے بحثیت ڈی جی ایم او دو مرتبہ ایسا کرنے کی تجویز دی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ وزیراعظم ہم یہ کرسکتے ہیں۔‘ مرحومہ کا جواب تھا کہ ’شاید آپ ایسا کرسکتے ہیں لیکن سیاسی طور پر یہ دیرپا نہیں ہوگا۔‘

سابق جنرل اسد درانی کے بقول جب جنرل مشرف آرمی چیف بنے تو انہوں نے کہا کہ چاغی میں جوہری دھماکوں کے بعد پاکستان کارگل آپریشن کے لیے زیادہ اچھی حالت میں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جوہری طاقت بننے کے بعد لڑائی کے زیادہ پھیلنے کا امکان بہت کم تھا۔ جنرل مشرف کا کہنا تھا کہ ’ہم کارگل کی چوٹیاں واپس لیں گے، بھارتی کیا کرسکتے ہیں۔‘

اس لڑائی کو شروع کرنے کی سیاسی حکومت کی حمایت تھی یا نہیں یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے۔

تاہم بھارتی فوج کی لداخ سکاؤٹس کے ایک سبکدوش کپتان تاشی سیفل، نے جنہیں اس جنگ میں تیسرے بڑے فوجی اعزاز ’ویر چکر‘ سے نوازا گیا، نے صحافی ظہور حسین کو بتایا کارگل کی جنگ پاکستان کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔

’سردی کے موسم میں پاکستانی فوجی اونچی پہاڑیوں پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔ فروری کے وسط میں ہماری ایک ٹیم، جو قریب 10 فوجیوں پر مشتمل تھی، گشت کے لیے نکلی اور کاکسر نامی علاقے میں لاپتہ ہو گئی۔ اس گشت کرنے والی پارٹی کو ڈھونڈنے کے لیے جو نئی سرچ ٹیمیں بھیجی گئی انہوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ پاکستانی فوج نے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔‘

بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے چند ہفتوں بعد ہی رونما ہونے والے اس کارروائی کو سینیئر صحافی اور مصنفہ نسیم زہرہ نے اپنی کتاب ’فرام کارگل ٹو دا کو (کارگل سے بغاوت تک)‘ میں بتایا کہ پاکستانی حکام نے اسے’آپریشن کوہ پیما‘ کا نام دیا تھا۔

 اسد درانی کے مطابق جوہری طاقت کے بعد کا مشرف کا تجزیہ کئی اعتبار سے غلط تھا لیکن انہوں نے اپنا مفروضہ ’جوہری استثنیٰ‘ کی بنیاد پر بنایا ہوا تھا کہ جوہری طاقت بننے کے بعد ہم بہت کچھ سے بچ سکتے ہیں۔ ’جہاں وہ غلط تھے وہ یہ تھا کہ اگر آپ ایسے کام کریں گے تو نوبت جوہری جنگ تک تو نہیں پہچنے گی لیکن آپ پر لاپرواہ ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ آپ جوہری جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں اس اطمینان کے ساتھ کہ 95 فیصد اس کا امکان نہیں ہوگا لیکن باقی کے پانچ فیصد کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسد نے لکھا کہ جنرل مشرف دنیا کی جانب سے غیرجانبداری پر شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ ’انہوں نے اس وقت انڈیا کے شدید ردعمل کا بھی غلط اندازہ لگایا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ غلط ثابت ہوا اور پاکستان کو چوٹیاں خالی کرنی پڑیں۔ ’بہت کم لوگوں کو اس کا علم تھا۔ نواز شریف (اس وقت کے وزیراعظم) کو تھوڑا بہت علم تھا مکمل آگہی نہیں تھی۔ چونکہ انہوں نے ہی اس کی اجازت دی تھی لہذا انہیں اس کی سیاسی ذمہ داری لینی تھی۔‘

تاہم نسیم زہرہ اپنے کتاب میں لکھتی ہیں کہ کارگل کی منصوبہ بندی جنرل ضیا الحق کے دور میں 1986 میں شروع ہوئی تھی اور اس کے لیے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹٹنٹ جنرل محمد صفدر کو ممکنات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج میں اس کارروائی پر رائے 1965 کی جنگ سے پہلے اور بعد کے افسران میں منقسم تھی۔ تاہم انہوں نے بھی تصدیق کی کہ جنرل علی قلی خان، جنرل آصف نواز اور پرویز مشرف کارروائی کے حامی تھے۔

اس وقت یہ کارروائی اوجڑی کیمپ سانحہ اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

نسیم زہرہ کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے فوجی سربراہ بننے کے فورا بعد سینیئر ترین جرنیلوں کے ایک گروپ نے آپریشن کوہ پیما کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ان کے بقول البتہ اس بارے میں وزیراعظم نواز شریف کو نہیں بتایا گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے تاہم نے اپنی کتاب ’اِن دی لائن آف فائر‘ میں اور اپنے انٹرویوز میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے وزیراعظم کو آگاہ کر دیا تھا۔

مشرف نے کمان سنبھالنے کے فوری بعد لائن آف کنٹرول پر ڈیوٹی دینے والے جرنیلوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا۔ نسیم زہرہ جنرل مشرف کی صدارت میں اس گروپ کے ایک اجلاس کا اندر کا حال کتاب میں بتاتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جب جنرل مشرف نے ناکامی کے امکان کے بارے میں پوچھا تو تین جرنیلوں نے ایک ایک کرکے انہیں یقین دلایا کہ ناکامی نہیں ہوگی اور اگر ایسا ہوا تو ان کی گردنیں حاضر ہوں گی۔

سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی 2003 میں شائع ہونے والی کتاب 'دی کارگل کنفلکٹ 1999: فرام فکشن ٹو فیکٹ' میں نسیم زہرہ سے مختلف واقعات بیان کیے تھے۔ ڈاکٹر مزاری اور جنرل مشرف کے کارگل پر تقریباً یکساں خیالات ہیں کہ وزیراعظم کو کارروائی سے قبل آگاہ کیا گیا تھا، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کے باعث ناکام ہو گئے ورنہ کارگل بڑی فوجی فتح ہو سکتی تھی۔

پاکستان کی پسپائی بعد میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان مزید تلخیوں کا سبب بنیں جو 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت پر منتج ہوئیں۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے طویل دور اقتدار کا آغاز ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان