مرزا غالب بنام پرویز مشرف

یہ خط ازروئے احتیاط بیرنگ بھیج رہا ہوں، جواب ضرور دینا، یہاں بیٹھے بیٹھے جی اکتا گیا ہے، تمہارے خط سے کچھ بہل جائے گا، اور اگر خود چلے آؤ تو کیا ہی کہنے۔

(غالب: پبلک ڈومین، پرویز مشرف: اے ایف پی)

آ ہا ہا ہا! میرا پیارا پرویز مشرف آیا۔ کیوں صاحب اب روٹھے ہی رہو گے یا منو گے بھی؟ دیکھو بھائی میرا حال بھی تم سے مختلف نہیں۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ اصل صاحب فراش ہوں۔

کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔ اب تو مغل جان بھی نہیں رہیں کہ ہماری مزاج پرسی کو آ جاتیں۔ تم خوش قسمت ہو کہ مہوش حیات نامی زہرہ جبیں اکثر محبت سے تمہارا ذکر کرتی ہے۔ میرے رنج و الم کا عالم یہ ہے کہ میں اب صرف مرنے کی توقع پر جیتا ہوں:

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

خیر، میری بات چھوڑو اپنی سناؤ۔ وہ بھی کیا اچھے دن تھے جب تم وردی پہن کر تقریر کیا کرتے تھے، کیسی گھن گرج تھی آواز میں، جب تم ہوا میں مکے لہرا کر اپنی طاقت دکھایا کرتے تھے تو سبھی دشمن دبک کر چھپ جایا کرتے تھے۔

آج بھی 12 مئی کا دن یاد کرتا ہوں تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہوں، اس روز تم نے واقعی دل موہ لینے والی تقریر کی، یہ تقریر ہوئی تو دارالخلافہ میں مگر اس کی بازگشت کراچی تک سنائی دی۔ اس روز 48 لاشے اٹھائے گئے۔

اور لال مسجد کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ کیسا شاندار آپریشن کیا تم نے، واللہ تمہاری جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو یہ ہمت نہ دکھا پاتا۔ منشی ہر گوپال تفتہ کا الزام ہے کہ آپریشن میں فاسفورس بموں کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔ مجھے تو یہ حاسدوں کی اڑائی ہوئی خبر لگتی ہے۔

سید زادے، ملکی مفاد کی جیسی تشریح تم نے کی ویسی آج تک کوئی نہیں کر پایا۔ تم نے کہا، ’سب سے پہلے پاکستان‘ اور پھر سب سے پہلے پاکستانیوں کو ہی امریکہ کے حوالے کر کے نقد دام وصول کر لیے۔

جامعہ حفصہ کی بچیاں آج تک تمہارے حق میں دعائیں کرتی ہیں۔ لال مسجد والے تمہارے نام کی منت مان کر جیتے ہیں۔ طالبان اب تک تمہارا قرض چکا نہیں پائے۔

یار لوگ اس سے پہلے ایک مارشل لگایا کرتے مگر تم نے دو مرتبہ آئین کی کتاب پھاڑ کر پھینکی۔ ویسے وہ تھی ہی اسی قابل، چھپائی ناقص اور روشنائی مدھم۔ نہ کاغذ شیو رام پوری اور نہ تحریر دل پذیر۔ نہ جانے لوگ ایسی کتاب کو سینے سے لگائے کیوں بیٹھے ہیں۔ اور منصفوں کی تو تم بات ہی جانے دو، ایسی ایسی قانونی موشگافیوں میں پڑ جاتے ہیں کہ ملکی مفاد کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ میرے بس میں ہو تو تمہاری تین نومبر والی تقریر جناب فیض مآب ملکہ معظمہ انگلستان کو لکھ بھیجوں کہ دیکھیے ایسے ملکی مفاد کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

لیکن یار بےپروا! اگر سچ پوچھو تو تمہارے سارے کارنامے ایک طرف اور بلوچستان کا معرکہ ایک طرف۔ جس انداز میں تم نے وہ فقرہ کہا کہ ہم تمہیں ایسی جگہ سے ہِٹ کریں گے کہ پتہ ہی نہیں چلے گا تو مجھے اپنا ہی شعر یاد آ گیا:

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

میر مہدی کو تو تم جانتے ہی ہو، جس طرح اس نے اردو عبارت لکھنے کا ڈھنگ پیدا کیا ہے کہ مجھ کو رشک آنے لگا، اسی طرح تمہاری جرات رندانہ پہ بھی میں ناز کرتا ہوں، آخر تمہارے آبا واجداد ہمارے ہی شہر کے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لو کیا یاد آگیا، بھلا بتاؤ تو آج کل کیا شوق ہیں؟ میں تو شراب گاہ گاہ پیے جاتا ہوں، جب موت آئے گی، مر رہوں گا۔ تمہیں شاید ڈاکٹروں نے پرہیز بتایا ہے۔ ویسے تمہارے جام جمشید سے میرا جام سفال اچھا ہے۔

سنو میاں! مجھے اس بات کا شدید قلق ہے کہ تمہیں غدار قرار دیا گیا ہے، غالباً یہ اعزاز بھی صرف تمہی کو نصیب ہوا ہے وگرنہ اس سے پہلے بھی کئی جری جوان گزرے، کسی منصف کی ہمت نہیں ہوئی کہ انہیں غدار لکھے۔

اب جو ہوا سو ہوا، میری مانو تو ہمت کر کے پاکستان آ جاؤ۔ یہاں معافی تلافی کا موسم چل رہا ہے۔ تمہارے بارے میں خوشنما چہکاریں کی جا رہی ہیں۔ جن کو تم اپنا دشمن گردانتے تھے وہ بھی تمہیں معاف کر چکے ہیں، یہ اور بات ہے کہ نہ تم نے کوئی معافی مانگی اور کسی عمل پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اور اس کی چنداں ضرورت بھی نہیں۔

بھلا ایسا کون سا جرم تم سے سرزد ہوا جس کی معافی مانگی جاوے؟ آئین کی کاپی پھاڑ دینے سے بھلا کیسے کوئی غدار ہو جاتا ہے؟

سچ پوچھو تو یہ معافی کی روایت اچھی ہے۔ نہ کسی جرم کی باز پرس نہ کوئی سزا۔ خدا بھلا کرے اس منصف کا جس نے تمہارے سر پر غداری کا تاج سجایا، آج زندہ ہوتا تو اپنے فیصلے پر پشیماں ہوتا۔

لو بھائی، اب مجھے اجازت دو۔ ڈاک کا ہرکارہ آتا ہوگا۔ یہ خط ازروئے احتیاط بیرنگ بھیج رہا ہوں، جواب ضرور دینا، یہاں بیٹھے بیٹھے جی اکتا گیا ہے، تمہارے خط سے کچھ بہل جائے گا، اور اگر خود چلے آؤ تو کیا ہی کہنے، یہاں خوب مینھ برس رہا ہے، کسی روز ابر و شب ماہ تاب میں بیٹھیں گے، پرانے دنوں کو یاد کریں گے۔

خوشنودی کا طالب
غالب

نوٹ: یہ تحریر طنزیہ ہے اور مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ