کبھی سزائے موت کی حمایت نہیں کی: برطانوی وزیر داخلہ

ہو سکتا ہے سزائے موت کی حمایت کے حوالے سے میری ویڈیو کو ایڈٹ کیا گیا ہو تاکہ اسے مخصوص انداز میں پیش کیا جا سکے: پریتی پٹیل۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزامے نے وزیر پریتی پٹیل کو اسرائیلی حکام سے غیراعلانیہ ملاقاتوں کے بعد 2017 میں برطرف کر دیا تھا(اے ایف پی)

ماضی میں سزائے موت کی بحالی پر زور دینے والی نئی برطانوی وزیرداخلہ پریتی پٹیل نے تردید کی ہے کہ انہوں نے کبھی سزائے موت کی حمایت کی تھی۔

وزارت داخلہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پریتی نے کہا وہ چاہتی ہیں کہ مجرم ’حقیقی طور پر دہشت محسوس کریں۔‘

نئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے دو برس تک ایوان میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والی اور بریگزٹ کی پُرجوش حامی پریتی کو گذشتہ ہفتے وزیر داخلہ مقرر کیا، جس سے ایک تنازع کھڑا ہوگیا کیونکہ پریتی ماضی میں سزائے موت کی حامی رہی ہیں۔

تاہم اب وہ کہتی ہیں کہ ان کے پرانے دعووں کے باوجود ایسا نہیں کہ وہ سزائے موت کی پُرجوش حامی ہیں۔

پریتی نے کہا سزائے موت کے مسئلے پر ان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کرلیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے سزائے موت سے متعلق بیان والی فوٹیج کو ایڈٹ کیا گیا۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹریزامے نے عالمی ترقی کی وزیر پریتی پٹیل کو اسرائیلی حکام سے غیراعلانیہ ملاقاتوں کے بعد 2017 میں برطرف کر دیا تھا۔ تاہم، اب ان کی بورس جانسن حکومت میں حیرت انگیز طور پر واپسی ہوئی ہے۔

سزائے موت کی حمایت سے متعلق اخبار ڈیلی میل کے سوال پر پریتی نے کہا:’میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں اس کی پرجوش حامی ہوں اور(جو میں نے کہا) سیاق و سباق سے مسلسل ہٹ کر لیا جا رہا ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا ماضی میں ان سے’جرائم کی روک تھام کے لیے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اس حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’ہو سکتا ہے سزائے موت کی حمایت کے حوالے سے ان کی ویڈیو کو ایڈٹ کیا گیا ہو تاکہ اسے مخصوص انداز میں پیش کیا جا سکے‘۔

2011 میں بی بی سی کے پروگرام ’کوئسچن ٹائم‘ میں پریتی نے کہا تھا: ’میں واقعی سمجھتی ہوں اس ملک میں، جب ہمارا نظام مسلسل ناکامی سے دوچار ہے اور جہاں ہم قاتلوں، خواتین کی عصمت دری کرنے والوں اور دوسرے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو معاشرے میں سنگین ترین جرائم کے مرتکب ہو کر جیل جاتے ہیں، ان لوگوں کو معاشرے میں وہی جرائم دوبارہ کرنے کے لیے جیل سے رہا کر دیا جاتا ہے جو وہ پہلے کر چکے ہوتے ہیں۔‘

2006 میں پریتی کو کنزرویٹو پارٹی کا امیدوار منتخب کیا گیا تھا۔ اس موقعے پر انہوں نے اخبار دی میل آن سنڈے کو بھی بتایا: ’اگر آپ کے پاس پولیس اہلکاروں کے قتل اور دوسرے سنگین جرائم کی سزا انتہائی سخت ہو تو مجھے یقین ہے اس سے جرائم میں کمی ہوگی۔ ہمیں لوگوں تک واضح پیغام پہنچانا ہے کہ جرم کرکے بچا نہیں جا سکتا۔ سزا جرم کے مطابق ہونی چاہییے۔ میں سزائے موت کی حمایت کرتی ہوں۔‘

جانسن نے اگلے تین سال میں 20 ہزار پولیس افسربھرتی کرنے کے لیے 1.1 ارب پاؤنڈز خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے اور بطور وزیر داخلہ حکومتی پالیسی پر عمل درآمد پریتی کی ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا:’میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ کنزرویٹو پارٹی پولیس اور پولیس افسروں کی جماعت ہے۔ سیدھی سی بات ہے، پولیس افسر اور پولیس کی نفری زیادہ ہوں۔ میں چاہتی ہوں (مجرم) جرم کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے حقیقی معنوں میں دہشت محسوس کریں۔‘

’میری توجہ اب امن و امان پر ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس کو بااختیار بنائیں۔‘

پریتی نے کہا: ’کنزرویٹو پارٹی وہ جماعت ہے جو امن وامان پر یقین رکھتی ہے بس!! ہمارے عوام اور گلی کوچوں کی حفاظت اور امن و امان ہماری اقدار کی جان ہیں۔‘

لبرل ڈیموکریٹس کے داخلی امور کے ترجمان ایڈ ڈیوے نے کہا:’پریتی پٹیل کا یہ نکتہ نظر کہ لوگوں پر پولیس کی دہشت سے جرائم میں کمی آئے گی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان وجوہات سے کتنی بے خبر ہیں جن کی بنا پربعض نوجوان جرم کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔‘

’اکثراوقات نوجوان کہتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ چاقو رکھتے ہیں کیونکہ انہیں نوجوانوں کے دوسرے گروہوں کا خوف ہوتا ہے۔ ہمیں مزید پولیس کی ضرورت ہے تاکہ ان نوجوانوں کے خوف میں کمی آئے۔ انہیں یہ اعتماد ہو کہ پولیس ان کی حفاظت کے لیے آئی ہے نہ کہ انہیں مزید دہشت زدہ کرنے کے لیے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ