ننکانہ صاحب کے علاقے وار برٹن میں ہفتے کو توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے وارث علی ولد عیسیٰ کے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے جبکہ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرہ کی مدد سے ہجوم میں شامل افراد کی شناخت کرنے کے بعد 37 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
آر پی او شیخوپورہ بابر سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ہجوم میں شامل افراد کی شناخت کا عمل شروع کیا ہوا ہے جبکہ اب تک 37 افراد پولیس حراست میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وارث پر پہلے بھی توہین مذہب کا الزام تھا اور وہ جیل میں رہا تھا اسی وجہ سے اس کی والدہ اور ایک سوتیلے بھائی نے اس سے اپنا رشتہ منقطع کر رکھا تھا۔ وارث الگ رہتا تھا اور اس کی شادی بھی دو سال پہلے ختم ہو چکی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہفتے کو جب وارث پر حملہ ہوا تو ہجوم اسے علاقے کی تنگ گلیوں میں لے گیا جہاں پولیس کی گاڑیاں نہیں جاسکتی تھیں۔ اس کے باوجود ہم نے موٹر سائیکل پر پولیس کو بھیجا جو اسے بچا کر تھانے لے آئی لیکن پھر تھانے سے لوگ اسے نکال کر لے گئے اور اسی غفلت پر پولیس اہلکاروں کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف ننکانہ پولیس کے ترجمان محمد وقاص نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ’ایک اس ہجوم کے خلاف جس نے وارث کو قتل کیا۔ اور یہ ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے اس کی کوئی معلومات کسی کو فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ جبکہ دوسری ایف آئی آر وارث کے خلاف 295 بی کے تحت تھانہ وار برٹن میں درج کی گئی ہے۔‘
’اس ایف آئی آر میں مدعی سید زاہد حسین کاظمی ہیں جو ممبر ڈسٹرکٹ امن کمیٹی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کی صبح فجر کی نماز پڑھ کر جب وہ امام بارگاہ سے نکلے تو انہوں نے توہین پر مبنی مواد بازار میں بکھرا دیکھا۔ اس دوران علاقے کے کچھ دیگر افراد بھی ایسی تحریر اور مواد اٹھائے ہوئے نامعلوم ملزم کی تلاش میں انہیں ملے چنانچہ اہل علاقہ میں سے کسی کی ریسکیو 15 کال پر پولیس بھی وقوعے پر پہنچ گئی۔‘