چھ فروری کو ترکی اور شام کے مختلف علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد درجنوں ممالک قدرتی آفت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران اور تباہی کی ہولناکی کم کرنے کی خاطر متاثرہ علاقوں میں امداد اور ریسکیو آپریشن کے لیے لپکے۔
انسانی بنیادوں پر کی جانے والے ان بے لوث امدادی کارروائیوں نے بلاشبہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا مرد، خواتین، بزرگوں اور بچوں کو ٹنوں وزنی ملبے کے نیچے سے نکالا، یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ ریسکیو کیے جانے والے مضروب ترک متاثرین کو مختلف ہسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
80 برسوں کے شدید ترین زلزلے سے ترکی کا جنوب مشرقی خطہ بری طرح متاثر ہوا۔ اس موقعے پر دوسرے ملکوں کی طرح اسرائیل نے بھی ترکوں کے زخموں پر ’ہمدردی کا مرہم‘ رکھنے کے لیے اپنی فوج کے خصوصی تربیت یافتہ دستے بھجوائے۔ فلسطینیوں کی غصب شدہ سرزمین پر قائم صہیونی ریاست کی وزارت دفاع اور خارجہ امور کے باہمی اشتراک سے ترکی میں ریسکیو کارروائیاں بجائے خود اسرائیل کے انسانی حقوق سے متعلق ٹریک ریکارڈ سے متصادم ہیں۔
تاہم فوجی سفارت کاری کے ذریعے ساکھ بحال کرنے کے خواہش مند شاطر صہیونیوں نے ترکی میں اسرائیلی ریسکیو کو ’آپریشن شاخ زیتون‘ کا کوڈ نام دے کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی ایک اور ناکام کوشش کی ہے۔
انقرہ اور تل ابیب سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے باہمی رابطوں کے بعد اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود ترک عوام تل ابیب کو آج بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی میں زلزلے کے بعد انسانی بنیادوں پر صہیونی فوجیوں کی ریسکیو کارروائیوں میں شرکت سے تل ابیب ترکوں کے دل جیتنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اسی ضمن میں اسرائیلی رہنماؤں نے ترکی اور شام میں زلزلے کی تباہ کاریوں پر دکھ اور افسوس کا مضحکہ خیز اظہار بھی کیا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رہنما اس وقت کہاں تھے جب انہوں نے اپنی (اسرائیلی) فوج کو غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لیے 2008، 2009، 2012، 2014، 2018 اور 2021 میں کھلی جنگیں مسلط کرنے کے احکامات دیے؟
فلسطینیوں کے ملکیتی درجنوں گھر بشمول کئی منزلہ عمارتوں کو قابض اسرائیلی فوج کے لڑاکا طیاروں نے بمباری کے ذریعے وہاں مقیم بزرگوں، ننھے بچوں سمیت مرد وخواتین کے سروں پر قیامت بنا کر ڈھایا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے بذات خود 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر آتش و آہن کی بارش کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کو فلسطینی تاریخ کے سب سے زیادہ خونی سال کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 کی 51 دن جاری رہنے والی جنگ میں اسرائیلی فوج نے بلا توقف غزہ کی پٹی پر 6000 راکٹ، ٹینکوں اور توپ خانے سے 50 ہزار گولے داغے۔ ان اسرائیلی حملوں میں551 بچوں اور 299 خواتین سمیت 2251 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 11 ہزار زخمی ہوئے۔ اسرائیلی جنگ نے 1500فلسطینی بچوں کو یتیمی کا تحفہ بھی دیا۔
نیز اسرائیلی جارحیت سے 28 ہزار سے زیادہ مکانات کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ غربت کی چکی میں پسنے والے 65 ہزار اہل غزہ بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ اسرائیلی بمباری سے گھروں کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔
اس تاریخی حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ 2019 میں بینی گینٹز موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے چیف آف سٹاف تھے۔ گینٹز ’امن کی فاختہ‘ بن کر شہرت کے متلاشی رہے، لیکن دوسری جانب ان کی بزعم خود مشتہر کی جانے والی امن پسندی کا پردہ چاک کرنے کے لیے ان کا یہ بیان ہی کافی ہے جو انہوں نے 2014 کی غزہ جنگ کے موقع پر دیا: ’ہم اہل غزہ کو پتھر کے زمانے میں بھیج دیں گے۔‘
ڈیجیٹل ایج کے باسیوں کو ماضی بعید کی باتیں یاد نہ رہتی ہوں لیکن انہیں اسرائیلی کنیسٹ کے ایک موجودہ رکن الموگ کوہن کا یہ بیان تو ضرور یاد ہو گا جس میں (مسٹر کوہن) نے اسرائیلی فوج کے لڑاکا دستوں کو جنین میں فلسطینیوں کے قتل عام پر ’پیشہ وارانہ امور‘ کی انجام دہی پر شاباش دی اور غاصب اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کا مزید قتل عام جاری رکھنے کا لائسنس بھی تھما دیا۔
اسرائیلی رہنماؤں نے اب تک کتنے فلسطینی تہہ تیغ کیے اور اپنے انسان دشمن آپریشنز میں کتنوں کی زندگیاں تاراج کرنے کی شوخیاں بگھاریں، ان کا شمار ممکن نہیں۔ یہ مثالیں دیگ کے چند چاول ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت اور فلسطینیوں سے متعلق اسرائیل کا سرکاری موقف واضح ہوتا ہے۔
دوسری جانب فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے قابض اسرائیلی فوجی زلزلے کے بعد ترکی میں اپنی سرگرمیوں کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’صہیونی فوجی وفد نے متاثرہ علاقوں میں فیلڈ ہسپتال بنا رکھا ہے جہاں ترک زخمیوں کا اسرائیل سے ساتھ لائے گئے جدید آلات جراحی سے علاج معالجہ کیا جا رہا ہے۔‘
یہ تفصیل پڑھ کر اسرائیل کی انسان دوستی کو داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ایسے پی آر سٹنٹس فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی ہولناک کارروائیوں کا داغ اس کے سینے سے مٹانے میں مددگار نہیں ہو سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے تو غزہ کے ہسپتالوں اور غرب اردن میں ایمبولینس گاڑیوں کو بھی اپنی جنگی مشین کے نشانے پر رکھا۔
قارئین کرام! جان لیجیے کہ صہیونی کارپردازوں بالخصوص اس کی جارح فوج کی جانب سے ترکی کو فراہم کی جانے والی مابعد زلزلہ امداد اور ریسکیو کارروائیاں 2014 میں ابو یوسف النجار ہسپتال سے زبردستی نکالے جانے والے مریضوں کی تلخ یادوں کو ذہنوں سے محو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جب ہسپتال پر اسرائیلی بمباری کے بعد لاچار مریضوں کو ان کے رشتہ دار وہیل چیئرز، ہاتھوں اور کاندھوں پر اٹھا کر محفوظ مقام پر منتقل کر رہے تھے۔
اگر آج اسرائیل ترکی کے زلزلے کے بعد تباہی کے شکار علاقوں میں انسانی بحران پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے تو اس سے یہ سوال کرنا تو بنتا ہے کہ صہیونی حکام نے غزہ کی پٹی اور غرب اردن کے مریضوں پر بیرون فلسطین علاج معالجے کی سہولت پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے۔ 15 برسوں سے اسرائیلی ایماء پر جاری سخت محاصرہ غزہ کے علاقے میں طبی سامان اور ادویہ کی ترسیل کی راہ میں کیوں کر رکاوٹ بنا ہوا ہے؟
ترکی میں قدرتی آفت کا نشانہ بننے والے ترکوں کی اشک شوئی کا ڈرامہ رچاتے ہوئے اسرائیل یہ کیوں کر فراموش کر سکتا ہے کہ تل ابیب تادم تحریر خود لاکھوں فلسطینیوں کو درپیش لامتناہی تباہیوں سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔ یادش بخیر کہ 2010 میں انسانی حقوق حریت (آئی ایچ ایچ) کے زیر انتظام فریڈم فلوٹیلا لے کر ترک رضاکار جب محصور اہالیانِ غزہ کے لیے سمندر کے راستے امداد لے جا رہے تھے تو یہ اسرائیلی فوجی کمانڈوز ہی تھے کہ جنہوں نے بین الاقوامی پانیوں میں فلوٹیلا پر حملہ کر کے چودہ ترک رضاکاروں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔
اسرائیلی تاریخ اور مقبوضہ عرب علاقوں میں تل ابیب کے اقدامات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے والا کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس امر سے ضرور اتفاق کرے گا کہ فلسطینیوں کی چرائی گئی زمین پر سات دہائیاں قبل قائم کی گئی صہیونی ریاست جارحیت اور بربریت سے عبارت اپنے قبیح امیج کو سافٹ امیج سے تبدیل کرنے کے جتنے مرضی جتن کر لے، ناکامی اس کا مقدر ہے۔
اسرائیل کے ’شاخ زیتون آپریشن‘ کا اصل میدان فلسطین ہے کیونکہ غرب اردن اور غزہ میں پھیلائی جانے والی تباہی کسی قدرتی آفت کی مرہون منت نہیں بلکہ تل ابیب کی نسل پرستانہ انتہا پسند پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔