ترکی، شام زلزلہ: 31 ہزار اموات اور ’84 ارب ڈالر‘ سے زیادہ کا نقصان

ترکی کے ایک کاروباری ادارے کے مطابق ملک کے بنیادی اخراجات ہاؤسنگ، بجلی کی ترسیل کے نظام، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور بے گھر لاکھوں افراد کی مختصر، درمیانی اور طویل مدتی پناہ کی ضروریات کو پورا کرنے پر اٹھیں گے۔

ترکی میں ملبے تلے دبے افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے (اے ایف پی)

ترکی میں ایک کاروباری گروپ کے مطابق بدترین زلزلے کے نتیجے میں ملک کو 84.1 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جبکہ حکومتی عہدیدار کے مطابق قدرتی آفت سے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

ترکی کی غیر سرکاری کاروباری تنظیم ٹرکش انٹرپرائز اینڈ بزنس کنفیڈریشن (ٹرکونفیڈ) کی گذشتہ ہفتے کے اختتام پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں حالیہ زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

ترکی اور شام میں گذشتہ پیر کو 7.8 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 36 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ امدادی کارروائیاں ملبے کے نیچے دبے بچ جانے والوں کو نکالنے کی بجائے پناہ، خوراک اور نفیساتی دیکھ بھال کی طرف مرکوز ہو گئی ہیں۔

صرف ترکی میں زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 31,643 ہے جبکہ شام میں اب تک 3,581 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

نقصانات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ٹرکونفیڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے سے متاثر ہونے والے ہزاروں مکانات کی تعمیر و مرمت پر 70.8 ارب ڈالر خرچ ہوں گے، اور قدرتی آفت سے ہونے والے نقصانات کے باعث ترکی کی قومی آمدن میں 10.4 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو گی، جبکہ ملک میں (نجی و سرکاری) کاروبار کے لیے ورکنگ ڈیز میں کمی کی وجہ 2.9 ارب ڈالر کے اضافی خسارے کا حساب لگایا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرکونفیڈ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بنیادی اخراجات ہاؤسنگ، بجلی کی ترسیل کے نظام، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور بے گھر لاکھوں افراد کی مختصر، درمیانی اور طویل مدتی پناہ کی ضروریات کو پورا کرنے پر آئیں گے۔

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ریاست ایک سال کے اندر گھروں کی تعمیر نو مکمل کر لے گی اور ان کی حکومت ’ملک کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنے‘ کے لیے منصوبہ تیار کر رہی ہے۔

زلزلے سے متاثر ہونے والے ترکی کے دس صوبوں کی مجموعی آبادی تقریباً ایک کروڑ 34 لاکھ ہے، جو ملکی آبادی کا پندرہ فیصد ہے اور یہ علاقے مجموعی قومی پیداوار کا دس فیصد پیدا کرتے ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمود محی الدین نے اتوار کو عرب مالیاتی فورم کے اجلاس میں کہا تھا کہ ترکی کی مجموعی قومی پیداوار پر زلزلے کے اثرات اتنے نمایاں ہونے کے امکانات نہیں ہیں جتنے شمال مغربی ترکی میں 1999 کے اس زلزلے کے بعد سامنے آئے تھے جس نے صنعتی مرکز کو متاثر کیا تھا۔

محی الدین نے مزید کہا کہ اگلے چند مہینوں میں زلزلے کے ابتدائی اثرات ختم ہونے پر تعمیر نو میں سرکاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری قومی پیداوار کی شرح نمو کو آگے لے جا سکتی ہے۔

بہر حال ماہرین اقتصادیات اور حکام کا اندازہ ہے کہ زلزلے سے اس سال اقتصادی ترقی کی شرح میں دو فیصد تک کمی آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت نے 2022 میں شرح نمو میں پانچ فیصد کے حساب سے ترقی کی پیشگوئی کی تھی اور زلزلے سے پہلے 2023 میں 5.5 فیصد ترقی کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

ترکی میں اس سال موسم گرما میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جو طیب اردوغان کے لیے ان کے دو دہائیوں کے اقتدار کے دوران سب سے بڑا چیلنج ہوں گے۔

زلزلے سے متاثرہ 10 صوبوں میں تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے اور مرکزی بینک نے بعض قرضوں کی ادائیگی ملتوی کر دی ہے۔ وزارت خزانہ نے جولائی کے آخر تک زلزلے والے علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر وہاں ٹیکس کی ادائیگی ملتوی کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی کے قدرتی آفات سے متعلق ادارے کا کہنا ہے کہ ترک تنظیموں کے 32 ہزار سے زائد افراد آٹھ ہزار 294 بین الاقوامی امدادی کارکنوں کے ساتھ مل کر تلاش و بچاؤ کی کوششوں پر کام کر رہے ہیں۔

نیوز ایجنسی کے مطابق سرچ ٹیمیں چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں کیونکہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملبے میں سے لوگوں کو زندہ نکالنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

کئی علاقوں میں امدادی ٹیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سینسرز اور جدید سرچ آلات کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ صرف بیلچوں یا اپنے ہاتھوں سے ملبے میں کھدائی کر رہے ہیں۔

کئی دنوں کے غم اور تکلیف کے بعد ترکی میں عمارتوں کے ناقص معیار کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک صدی میں ملک کی بدترین آفت سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ردعمل پر غصہ بڑھ رہا ہے۔

ترکی میں سرکاری طور پر بارہ ہزار 141 عمارتیں یا تو تباہ ہوئیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا