اسرائیل خانہ جنگی کے راستے پر؟

نسل پرستانہ فسطائیت کے الزامات کی زد میں رہنے والے اسرائیلی حکمران اتحاد اور اس میں شامل جماعتوں نے آتے ہی ہر طرف یلغار کر دی، جس کا رد عمل روکنا مشکل ہو رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو 22 جنوری 2023 کو کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

چھٹی بار وزیراعظم نتن یاہو کی حکومت کو پہلے تین ہفتوں میں ہی ’چھٹی کا دودھ‘ یاد آنے لگا ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کے لیے زبردست احتجاجی مظاہروں کے بعد عدالتی فیصلے کے مطابق ایک ٹیکس چور، مگر اہم وزیر کی چھٹی کرنی پڑ گئی۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ نسل پرستانہ فسطائیت کے الزامات کی زد میں رہنے والے اسرائیلی حکمران اتحاد اور اس میں شامل جماعتوں نے آتے ہی ہر طرف یلغار کر دی، جس کا رد عمل روکنا مشکل ہو رہا ہے۔

انتہا پسند حکومت نے اسرائیلی اداروں کو بھی آتے ہی نشانے پر لے لیا ہے۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

شدت پسند صہیونی جماعتوں کے قائدین نے حکومت میں آنے کے بعد اس ضرب المثل کی بھی چنداں پروا نہیں کی ’تیز چلو گے۔ جلد مرو گے۔‘

حکومت میں آتے ہی فوج اور عدلیہ پر بیک وقت حملوں کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ عدلیہ کے حوالے سے اپنے پرانے عزائم کو پورا کرنا نتن یاہو حکومت کے لیے زیادہ اہم قرار پایا ہے، لہٰذا وزیر انصاف کے ذریعے عدالتوں کو انصاف سے روکنے کے لیے فٹا فٹ ایک مسودہ قانون سامنے آ گیا۔

سوائے عدلیہ کو زیر کرنے، انتہا پسند حکومت میں شامل شخصیات کو عدلیہ پر بالادست بنانے، عدالتی فیصلوں کی زد میں حکومت اور اس کے وزیروں کو آنے سے محفوظ رکھنے اور عدالتی فعالیت کو لگام دینے کے لیے یہ ایک جامع منصوبہ ہے۔

جس شدت اور سرعت سے عدلیہ کو زیر کرنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا ہے۔ ردعمل بھی اسی سرعت اور شدت کے ساتھ ہوا ہے۔ اب تک تل ابیب میں ایک سے زائد بھرپور احتجاجی مظاہرے عدلیہ کی بالادستی کے حق میں اور حکومتی منصوبے کے خلاف ہو چکے ہیں۔

تازہ احتجاجی مظاہرے میں اسرائیلی پولیس کے مطابق ایک لاکھ  لوگ جمع تھے۔ تل ابیب میں رات کی سردی اور حکومت مخالف عدالتی حامیوں کی گرما گرمی، حکومت کے لیے ایک خوفناک منظر تھا۔

جس حکومت کی سوچ یہ ہے کہ مظاہرین کی تعداد کو کبھی بھی 100 سے بڑھنے نہیں دینا۔ اگر کبھی اس سے زیادہ تعداد میں لوگ احتجاج کرنا چاہیں تو پولیس کی پیشگی اجازت لینا ضروری ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے لیے یہ احتجاجی مظاہرے قابل برداشت نہیں ہو سکتے۔ حکومت اسرائیل کو یورپ نہیں بننے دے گی۔

اس پر مستزاد یہ کہ کابینہ کے اہم رکن اور شاس پارٹی کے سربراہ درعی آری کو ان کی صہیونیت پسندی کی کٹر شناخت کے باوجود ٹیکس چوری میں سزا یافتہ ہونے کے باعث اسرائیلی ہائی کورٹ کے حکم پر کابینہ سے ایک ہفتے کے اندر اندر نکالنا پڑا۔

نتن یاہو نے یہ بھاری دل کے ساتھ کیا ہے۔ ایک مضبوط انتہا پسند حکومت کے لیے تین ہفتوں کے دوران یقیناً یہ کمزور ترین لمحہ بن گیا۔ شاس سربراہ بطور وزیر داخلہ کابینہ میں مضوط حیثیت رکھتے تھے، لیکن عدالت کے سامنے ریت ثابت ہوئے۔

مگر بات یہیں رکنے کی نہیں ہے۔ درعی آری کے بعد نتن یاہو خود عدالتی نشانے پر ہیں۔ کرپشن کے تین مقدمات میں ماخوذ چھٹی بار کے اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف عدالتی دانتوں کا اب تیز ہونا فطری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے حامی اور کرپشن کے مخالفین کے اس طرح سڑکوں پر نکل آنے سے رنگ برنگی دنیا سے آنے والے یہودی آبادکاروں کے درمیان مختلف سیاسی خیالات اور رجحانات کا ٹکراؤ بڑھنا اب لازمی ہے۔

سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے تو اس خطرے کو بھانپتے ہوئے کھلے لفظوں میں اسرائیل کو خانہ جنگی کی زد میں قرار دیا ہے۔

اسرائیلی میں خانہ جنگی کی پیش گوئی کرنے والے سابق وزیر دفاع اکیلے نہیں، سابق وزیراعظم ایہود باراک اور سابق چیف جسٹس بھی یہی سوچ رکھتے ہیں۔ سابق اسرائیلی چیف جسٹس ہارون باراک نے تو اسرائیل میں پیدا شدہ صورت حال کو تیسرے معبد کے خاتمے کے سفر کا آغاز قرار دیا ہے۔ البتہ اسرائیلی دانشور ممکنہ خانہ جنگی کے اس خطرے کو ’برادرانہ جنگ‘ کا نام دے رہے ہیں۔

فلسطینیوں کے خلاف اس انتہا پسند اسرائیلی حکومت کے ایجنڈے اور اس کے وزیروں کے نسل پرستانہ پس منظر کو امریکہ و یورپ نے کافی حد تک قبول کر لیا ہے۔ محض زبانی جمع خرچ اور بیان بازی کی حد تک ریکارڈ درست رکھنے کی کوئی مجبوری ہوئی تو اکا دکا بیانات آ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

اگرچہ ابراہم معاہدے کے بعد بھی حکومت میں شامل جماعتوں کا فکر وعمل فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے لیے آج بھی اتنا ہی بے رحمانہ ہے جتنا حکومت میں آنے سے  پہلے بے رحمانہ تھا۔

اس ممکنہ اسرائیلی خانہ جنگی کو کچھ دیر کے لیے ٹالا جا سکتا ہے تاکہ اسرائیلیوں کی نئی نسل اس کھلی نسل پرستی سے قدرے بیزار ہو کر واپس امریکہ و یورپ نہ پدھارنے لگے۔

نئی نسل کو اس مسلسل جدل کے ماحول سے بیزار اور فرار ہونے کو روکنے کے لیے ایک فوری حل یاہو کے پیش نظر یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ ڈرون طیاروں کے معاملے کو ایران کے خلاف کسی جھوٹی موٹی جنگی مہم کا جواز بنا کر عوامی توجہ ادھر سے ادھر کر دے۔

یہ نہیں تو کم از کم پراپیگنڈہ کی مہم کو خطے میں ’مشترکہ خطرے‘ کے بارے میں از سر نو ڈیزائن کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف جنگ مسلط کرنا سب سے زیادہ آسان ہے، مگر ابراہم معاہدے کے اس مرحلے پر فلسطینیوں کا وسیع پیمانے پر خون خرابہ کرنا ’رسکی‘ ہو سکتا ہے۔

البتہ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرتے رہنے اور ان کے گھر مسمار کرتے رہنے سے اڑوس پڑوس کے ممالک میں  شور اٹھنے کا اندیشہ نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ آج کل کے حالات گواہ ہیں۔

تاہم عارضی حکمت عملی سے انتہا پسند حکومت نے نکلنے کی سبیل پیدا کر بھی لی تو مستقل بنیادوں پر اب اسرائیل کو خانہ جنگی سے بچانا بہر حال مشکل ہو سکتا ہے۔ درعی آری کا بے عزتی کے ساتھ کابینہ سے اخراج انتہا پسند حکومتی اتحاد کے لیے کیونکر قابل برداشت ہو سکتا ہے!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ