حسین الحسینی: وادی بقاع سے بقعہ نور تک

طائف معاہدے کے ساتھ الحسینی کی کمٹمنٹ حافظ الاسد کو قبول تھی نہ ایران کو اور نہ اسرائیل کو، مگر وہ ثابت قدمی کی مثال بن کر اس کے ساتھ کھڑے رہے۔

حسین الحسینی امل تحریک کے سربراہ اور لبنان کی مزاحمتی تحریک کے اہم رکن تھے (لبنان ہسٹورین/کری ایٹیو کامنز)

86 سال کی عمر میں لبنان کے ممتاز رہنما اور سابق سپیکر پارلیمنٹ حسین الحسینی کا جنازہ اٹھا تو کسی نے کہا کہ یہ مرد پروقار کا جنازہ ہے۔ کسی نے اس کو عزم کے پکے اور قول کے سچے قائد کا سفر آخرت قرار دیا۔ کوئی محسن کی موت سمجھتا رہا اور کئی لوگوں نے امن معاہدے کے ’گارڈ فادر‘ کا جنازہ قرار دیا۔ کسی نے طائف کے معاہدے کا اختتام کہا تو کسی نے حتمی انجام۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

بلاشبہ لبنان کے علاقے وادی بقاع سے ابھرنے والے حسین الحسینی کو بہت سارے لوگ ایک کامیابی کی کہانی نہیں سمجھتے، خصوصاً وہ لوگ جو جوڑ توڑ کو تفریق و تقسیم اور عناد، فساد اور مفاد کے لیے استعمال کرنے میں دھنی ہیں۔ سوداگروں کی اس دنیا میں کامیابی ادھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا مال ادھر بیچنا قرار پایا جاتا ہے۔ خرید وفروخت کی مہارت وعادت میں وہ ایسے نامی اور پختہ ہو چکے ہیں کہ سب بیچ کھانے میں بھی ذرا شرم نہیں کھاتے۔

دین دھرم، حیا شرم حتیٰ کہ دیر وحرم تک بیچ ڈالتے ہیں۔ اصول و فلسفہ کی بولی لگواتے ہیں۔ اصول و اقدار کا بیوپار کرتے ہیں۔ دھن کے حصول کے لیے تن اور من کا سودا کر لیتے ہیں۔ نظریے، قومی اتحاد، قومی مفاد، قومی وقار اور قومی کاز کو جنسِ بازار بنا ڈالتے ہیں۔ اسی کو کامیابی اور اسی کو کامیابی کی کہانی گردانتے اور مانتے ہیں۔

بلاشبہ حسین الحسینی ایسا کچھ نہ کر سکے۔ وہ تو نابیناؤں کے بیچ آئینوں کا کاروبار عام کرنے کی ایک سعی کرتے رہے۔ وہ فرقہ واریت اور گروہی تقسیم کو روکنے کی بات کرتے رہے۔ غیروں کی غلامی اور محتاجی کے بجائے سیاست کو قومی یکجہتی و خوداری سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ لوگوں کو نصرانی، ایرانی خانوں سے اوپر اٹھا کر لبنانی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے۔ حسین الحسینی آخر وقت تک اپنے اس موقف پر قائم رہے۔

حسین الحسینی کے لیے قوم کی آزادی اہم تھی، مساوات ہدف تھا۔ قومی وقار ان کی سیاست اور تگ و تاز کا معیار تھی، اس لیے ساری عمر لبنان کو غیر ملکوں اور بیرونی قیادتوں کے حوالے کرنے والوں کے کبھی حوالے ہوئے، نہ ایسے کسی حوالے کو اپنی شناخت کا حوالہ بنایا۔

18 سال کی عمر میں اہل لبنان کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور 86 سال تک اہل لبنان کی عزت، عظمت اور خوداری و خوشحالی کا پھریرا لہرانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی خدمت کا آغاز لبنان کی وادی بقاع میں بلدیاتی سیاست سے شروع ہوا۔

 وہ صرف الیکشن نہیں جیتے بلکہ بعد ازاں اپنی سوچ اور فکر کے علاوہ خدمت کے ذریعے انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کے دل بھی جیت لیے۔ اسی سبب وہ لبنانی پارلیمنٹ کے بھی بہت نوجوانی میں رکن بن گئے۔ ان کا شمار پارلیمنٹ کے کم عمر ترین ارکان میں ہوتا تھا۔ انہوں نے محض دس برسوں کے دوران لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر بننے میں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ’بزرگی بہ عقل است نہ بسال۔‘

اسی زمانے میں انہوں نے موسیٰ الصدر کے ساتھ مل کر ’امل تحریک‘ کی بنیاد رکھی۔ لبنان کو اپنی پراکسی بنانے والوں کو یہ مزید برا لگا کہ لبنان میں عزت اور وقار کی پہچان رکھنے والے عوامی رہنما کے ہاتھ اس طرح مضبوط تر ہوتے چلے جائیں کہ وہ دوسروں کے ہاتھوں ہتھیار بننے کو پہلے قبول نہ کر سکتے تھے، تو اب امل تحریک کے وجود میں آنے کے بعد وہ دسترس سے مزید نکل گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موسیٰ الصدر کو لیبیا میں 1978میں اسی سبب قتل کروایا گیا۔ امل تحریک اور اس کے شریک بانی حسین الحسینی کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا، مگر وہ حسین الحسینی تھے۔ صبر و استقامت کے راستے پر رہے۔ امل کو اپنے فکر وعمل سے سینچنے کے لیے آمادہ و تیار رہے۔ اب موسیٰ الصدر کی جگہ امل کے قائم مقام صدر بن گئے۔ موسیٰ الصدر کو راستے سے ہٹانے والے لبنان میں خانہ جنگی میں بھی ایک اہم فریق کے طور پر پس پردہ کردار ادا کر رہے تھے۔

یہ چیز حسین الحسینی کے لیے کیونکر قبول ہو سکتی تھی۔ انہوں نے اس کا توڑ سیاسی اور قومی بنیادوں پر نکالنے کے لیے اپنی جہد مزید تیز کر دی۔ انہوں نے خانہ جنگی اور تباہی میں الجھ کر رہ جانے والے اپنے ملک کے لوگوں کے لیے امن معاہدے کی تدبیر کی اور طائف میں پرامن بقائے باہمی، قومی ترقی وخوشحالی، اتفاق واتحاد اور عزت و وقار کے خواب دیکھتے ہوئے ایک معاہدے پر سبھوں کو اکٹھا کیا۔ وہ اس معاہدے کے روح رواں تھے، اس لیے اس کے گارڈ فادر بھی بنے اور طائف کے شیر بھی کہلائے۔

وہ تمام عمر طائف معاہدے کے ساتھ کھڑے رہے، اس پر ڈٹے رہے۔ استقامت کا پہاڑ بن کر۔ یہ حافظ الاسد کو قبول تھا، نہ ایران کو اور نہ اسرائیل کو۔ مگر وہ کھڑے رہے ثابت قدمی کی مثال بن کر۔ حتیٰ کہ انہیں امل تحریک کو خانہ جنگی میں جھونکے جانے کا حتی المقدور راستہ روکا۔

لیکن جب وہ بیرونی طالع آزماؤں اور اندرونی آلہ کاروں کا راستہ نہ روک سکے تو امل سے الگ ہو گئے کہ خود اسلحہ اٹھانے، ہتھیار بنانے اور خون بہانے کے الزامات کا آنا قبول نہ تھا۔ اگرچہ یہ ’آرڈر آف دی ڈے‘ تھا۔ یہ وقت کی آواز تھی۔ خوشحالی اور دو نمبر سیاسی کامیابیوں کا راستہ تھا۔ حکومت واقتدار کے سنگھاسن کی ضمانت تھی۔ وہ عمل اور امن سے اپنا اٹوٹ رشتہ بنا چکے تھے کہ اسی میں وہ لبنان کو سول حکمرانی کی منزل تک لے جانے کا خواب دیکھے ہوئے تھے۔

ان سے سپیکرشپ بھی سازش کے ذریعے چھین لی گئی۔ گویا آلہ کاروں نے گھیرا چاروں طرف سے ڈال لیا تھا، مگر وہ کھڑے رہے، ڈٹے رہے دیوار بن کر، انکار بن کر۔ وہ کامیاب نہ ہو سکے مگر کامیاب ٹھہرے، کامران قرار پائے کہ آخر وقت تک طائف کے امن معاہدے کی روشنی میں لبنان کو روشنی سے جگمگانے کے لیے کوشاں رہے۔ اللہ لبنان کی وادی بقاع کے حسین الحسینی کی قبر کو بقعہ نور بنا دے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ