بلوچستان، سندھ میں سیلاب متاثرہ خواتین کے شناختی کارڈ بنانے کا آغاز

ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی اور نادرا کے تعاون سے سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔

نو جنوری 2023 کی اس تصویر میں بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب سے متاثرہ علاقے میں خواتین پانی بھر کر لے جارہی ہیں۔ اس صوبے میں سینکڑوں خواتین کے یا تو شناختی کارڈز بنائے ہی نئے گئے تھے یا پھر سیلاب کے دوران گم ہوچکے ہیں (اے ایف پی)

بلوچستان سمیت ملک بھر میں گذشتہ برس آنے والے بدترین سیلاب نے جہاں نظام زندگی کو مفلوج کیا، وہیں دستاویزات کی عدم موجودگی نے متاثرین کو امداد اور دیگر مراعات سے بھی محروم کردیا۔

بلوچستان کے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک جعفرآباد کی رہائشی مورزادی بھی ہیں، جنہیں کہیں سے بھی امداد اس وجہ سے نہیں مل رہی کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں اور ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔

وہ اپنے شوہر کے شناختی کارڈ پر راشن نہیں لے سکتیں اور چونکہ ان کے شوہر نے ان کا شناختی کارڈ نہیں بنوایا ہوا تھا، اس وجہ سے وہ سیلاب کے بعد ملنے والے راشن اور دیگر سہولیات سے محروم رہی ہیں۔

یہ صرف مورزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ کئی خاندانوں کا ہے، جہاں خواتین کے پاس شناختی کارڈز نہیں اور وہ سیلاب کے باعث گھر بار بہہ جانے اور گھریلو سامان کی عدم دستیابی کے باعث کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی (ٹی ڈی ای اے) نے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی اور نادرا کے تعاون سے سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔

کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں پیر کو اس پروگرام کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی، جس میں متعلقہ اداروں کے نمائندوں، منتخب اراکین صوبائی اسمبلی، این جی اوز کے نمائندوں اور سول سوسائٹی نے شرکت کی۔

ٹی ڈی ای اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروگرام راشد چوہدری نے افتتاحی تقریب کے موقعے پر بتایا: ’ٹرسٹ 2010 سے خواتین کے شناختی کارڈ بنانے پر کام کر رہا ہے۔ یہ فافن کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ جب پاکستان میں سیلاب آیا تو معلوم ہوا کہ بہت ساری ایسی خواتین ہیں، جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں اور بعض ایسی خواتین بھی ہیں جن کے کارڈ سیلاب میں ضائع ہوگئے ہیں، جو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

راشد چوہدری کے مطابق: ’شناختی کارڈ نہ ہونے سے جہاں یہ خواتین ووٹ نہیں ڈال سکتیں، وہیں وہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو ملنے والے راشن اور دیگر سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ اس خلا کو کم کرنے کے لیے بہت سارے اداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ان کے شناختی بنوانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہ منصوبہ سکھر سے لانچ ہو چکا ہے، بلوچستان کے تین اضلاع اور سندھ کے چھ اضلاع اس میں شامل ہیں، اس کو فنڈنگ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کر رہا ہے، جو اگست 2023 تک جاری رہےگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول راشد چوہدری: ’بلوچستان میں سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں کو منتخب کیا گیا، جہاں خواتین، ٹرانس جینڈرز، معذور اور ضعیف افراد کی رجسٹریشن کی جائے گی، جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔‘

اس پروگرام کے تحت سندھ اور بلوچستان میں 85 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنائے جائیں گے، اس میں 36 ہزار ایسی خواتین شامل ہیں، جن کا شناختی کارڈ پہلی دفعہ بنانا ہے جبکہ وہ خواتین، ٹرانس جینڈر، معذور اور ضعیف افراد جن کے شناختی کارڈز گم ہوچکے ہیں، ان کی تعداد 49 ہزار ہے۔

راشد کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے تین اضلاع میں سے جعفرآباد میں صنفی فرق 11277ہے۔ یہاں پر ہمارا ہدف 1462 خواتین کو شناختی کارڈ بنا کر دیا ہے۔ نصیرآباد میں یہ شرح 15924ہے، جہاں ہمارا ہدف 2064 ہے، اسی طرح جھل مگسی میں یہ شرح 5141 ہے، جہاں پر ہمارا ہدف 666 خواتین کو شناختی کارڈ بنا کر دینا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان سٹیٹس فار ویمن کمیشن کی چیئرمین فوزیہ شاہین نے شناختی کارڈ کی اہمیت اور اس مںصوبے کی افادیت پر بات کی اور کہا کہ ’اگر کسی گھرانے کے پاس شناختی کارڈ نہ ہو تو اس سے پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔‘

بلوچستان میں مون سون کی بارشوں کے دوران مسلسل بارشوں اور سیلاب سے نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور جھل مگسی میں کئی دیہات پانی میں ڈوبے گئے تھے اور مکین جان بچا کر نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ صحبت پور میں چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی سیلاب پانی بعض علاقوں میں کھڑا ہے۔

بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹںے والے ادارے پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق یکم جون سے 31 اکتوبر 2022 کے دوران بارشوں اور سیلاب سے 336 افراد ہلاک، ایک لاکھ 15 مکانات مکمل طور پر تباہ، 2221 اعشاریہ 98 کلومیٹر سڑکیں اور 58 پل تباہ اور پانچ لاکھ کے قریب مال مویشی ہلاک ہوئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین