نادرا والو، ہمارا شناختی کارڈ بنا دو

جب ہم نے نادرا سے شناختی کارڈ بنانا چاہا تو اس کے بعد ہم پر کیا گزری؟

ہمیں جو درخواست اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے ہی جمع کروانی تھی، اب اس کی خاطر ہمیں انٹرنیٹ پر ادھر ادھر پھرنا پڑ رہا ہے (تصویر: نادرا)

انٹرنیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے انسان کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گئی ہے۔ پہلے جو کام دنوں میں ہوتے تھے، وہ اب گھنٹوں میں ہوتے ہیں اور جو گھنٹوں میں ہوتے تھے، وہ چٹکی بجانے میں مکمل ہو جاتے ہیں۔

پاکستان سے باہر بالکل ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن پاکستان کے اندر ایسا کیا ویسا بھی نہیں ہوتا۔

ہم نے جب بھی پاکستان میں کوئی کام انٹرنیٹ کی مدد سے کروانا چاہا، ہمیں عام روٹین سے زیادہ مشقت اٹھانی پڑی۔ اس میں ہماری قسمت کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے، پر آپ کو ایسی قسمت والے ہزاروں افراد مل جائیں تو پھر بات صرف قسمت کی نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

کچھ سال قبل ہمیں اپنی مادرِ علمی جامعہ پنجاب سے ایک سرٹیفکیٹ لینا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کا کلرک باوجود کئی درخواستوں کے ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔ ہم نے تھک ہار کر جامعہ کی ویب سائٹ سے ڈیپارٹمنٹ کی منتظم کی ای میل آئی ڈی لی اور اسے ساری کہانی لکھ ڈالی۔ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں ہمیں یقین تھا کہ قیامت آ سکتی ہے پر اس ای میل کا جواب نہیں آ سکتا۔ اس لیے ہم نے وہی ای میل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی بھیج دی۔ گرچہ امید اب بھی قیامت کی ہی تھی پر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

ڈیپارٹمنٹ کی منتظم تو ہماری امیدوں پر پوری اتریں لیکن وائس چانسلر صاحب نے ہمیں دھوکہ دے دیا۔ انہوں نے نہ صرف ای میل دیکھی بلکہ ڈیپارٹمنٹ کو بھی فارورڈ کر دی۔ اس کے دو روز بعد ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ کی منتظم کے دفتر میں بیٹھے ’آپ نے وائس چانسلر کو ای میل کیوں کی‘ کا جواب دے رہے تھے۔ ہمیں ان کا سوال کیسا لگا اور انہیں ہمارا جواب کیسا لگا، اس کا بیان رہنے دیتے ہیں۔ بس اتنا بتا دیتے ہیں کہ ہمیں 15 منٹ گھورنے کے بعد انہوں نے ہمارا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ہم پھر سے آن لائن پنگا لیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے شناختی کارڈ کی معیاد ختم ہونے والی ہے۔ ہم سوچنے لگے کہ نیا شناختی کارڈ بنوانے کی ذلالت پاکستانی سفارت خانے جا کر اٹھائیں یا پاکستان پہنچ کر اٹھائیں۔ کچھ دوستوں نے بتایا کہ ہم یہ کام اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے بھی کر سکتے ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو کمال ہو گیا۔ بیجنگ میں بیٹھ کر یہ تجربہ بھی کر لیتے ہیں۔

معلوم ہوا، نادرا نے عوام کی سہولت کے لیے ایک ویب سائٹ بنائی ہوئی ہے جس کے ذریعے عوام گھر بیٹھے شناختی کارڈ کی درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔

ہم نے فوراً ویب سائٹ کھولی۔ وہاں لکھا ہوا تھا کہ نئے شناختی کارڈ کی درخواست جمع کروانا بس ایک کلک کا کام ہے۔ ہم نے کہا ہم دس کلک کریں گے، آپ بس ہمارا شناختی کارڈ جاری کر دیں۔ ویب سائٹ نے کہا آپ ایک کی جگہ دس کلک کرنا چاہتی ہیں، ہم آپ سے سو کلک کروائیں گے۔ ہم نے کہا سو بسم اللہ۔ ہم صبح شام یہی کام کرتے ہیں۔ آپ بس ہمارا کام کر دیجیے۔ ہم آپ کو فیس کے ساتھ ساتھ دعا بھی دیں گے۔

ویب سائٹ نے کہا دعا کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، آپ پہلے فیس ادا کریں۔ ہم نے فیس ادا کر دی۔ پھر کہا، کوائف درج کرو، ہم نے وہ بھی درج کر دیے۔ پھر کہا گیا، یہ فارم پرنٹ کر کے اس پر اپنی انگلیوں کے نشان لگاؤ، پھر اس کی تصدیق کروا کے یہاں اپ لوڈ کرو۔ یہاں ہم پریشان ہو گئے۔ ہمارا اور ان کا وعدہ تو بس ایک کلک کا تھا، یہاں تو بات کلک سے بہت آگے جا  رہی تھی۔

ہم نے انہیں بتایا کہ یہ درخواست ہم خود جمع کروا رہے ہیں۔ کسی کو شوق نہیں کہ وہ ہمارا نام استعمال کرکے ٹوئٹر پر ذلیل و رسوا ہوتا پھرے۔ یہ ہمارا ہی شوق ہے۔ ویب سائٹ نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ شناختی کارڈ کی آن لائن درخواست کے لیے فارم کا تصدیق شدہ ہونا لازم ہے۔

ہمیں یہ تصدیق کا عمل کبھی پسند نہیں رہا۔ اللہ بخشے ہماری ہمسائی ایک سرکاری سکول میں ٹیچر تھیں۔ ہم اپنی سکول، کالج اور یونیورسٹی کی درخواستوں کے لیے اپنے کاغذات کی تصدیق ان سے ہی کرواتے تھے۔ آگے بھی کرواتے رہتے پر اللہ کو جو منظور۔ ان کی مہر یہیں رہ گئی اور وہ اپنے دستخط سمیت ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کے حضور پیش ہو گئیں۔ ان کی رحلت کے بعد ہم اپنے کاغذات کی تصدیق کیسے کرواتے تھے، یہ بس ہم اور ہمارا خدا جانتا ہے۔ پاکستان میں تو کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے تھے، پر چین میں بیٹھ کر کیا کریں؟

ہمیں جو درخواست اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے ہی جمع کروانی تھی، اب اس کی خاطر ہمیں انٹرنیٹ پر ادھر ادھر پھرنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے فارم کی تصدیق بھی کروا لی، اسے اپ لوڈ کر کے اپنی درخواست بھی جمع کر دی۔ نادرا نے ہمارے فنگر پرنٹ ماننے سے انکار کر دیا۔ ہم نے دوبارہ پرنٹ جمع کروائے، نادرا نے انہیں بھی ماننے سے انکار کر دیا۔  ہم قسم اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ہتھیلی کے ساتھ جڑی انگلیاں ہماری اپنی ہیں اور یہ ہماری پیدائش سے لے کر اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔ نادرا اپنا ریکارڈ چیک کرے۔ اس کی تبدیلی کے چانس ہماری انگلیاں تبدیل ہونے سے زیادہ ہیں۔

ایک کلک آپریشن ایک کلک تک ہی محدود ہوتا ہے۔ ہم یہاں کلک کے ساتھ ساتھ پرنٹنگ بھی کر رہے ہیں، سکیننگ بھی کر رہے ہیں، ان باکس بھی کر رہے ہیں، سائیکل بھی چلا رہے ہیں، ای میلز بھی لکھ رہے ہیں اور غصہ بھی کر رہے ہیں۔

اس سے اچھا تھا ہم پاکستان واپس جا کر ہی شناختی کارڈ بنوا لیتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ