جاوید اختر کے نام ایک کھلا خط

دونوں اطراف کے لوگ جاوید اختر سے ماضی کے مرثیے نہیں مستقبل کے نغمے سننا چاہتے ہیں۔

جاوید اختر 28 جنوری، 2023 کو امرتسر کے نواح میں ایک سکول کی تقریب میں شریک ہیں (اےا یف پی)

محترم جاوید اختر صاحب

میں آپ کے فن شاعری اور کہانیوں کا مداح ہوں اور آپ کو انتہائی محترم اور محبوب جانتا ہوں۔

میرے لیے آپ کی شخصیت کسی جغرافیائی اکائی سے زیادہ ثقافت، زبان اور ادب کے حوالوں سے اتنی قد آور ہے کہ اس کے سامنے فروعی اختلافات، سیاسی نظریات یا جانب دارانہ سوچیں ہیچ ہیں۔

میں آپ کی نظمیں پڑھتا ہوں۔ آپ کی فلمیں بار بار دیکھتا ہوں۔ مکالمے دہراتا ہوں، گیت گنگناتا ہوں اور ایسا کرنے والا میں اکیلا نہیں۔

میری طرح پاکستان میں بسنے والے بڑی تعداد میں لوگ جاوید اختر ولد جانثار اختر کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔

آج آپ اس مقام پر ہیں۔ جہاں آپ کا کہا ہوا ہر لفظ معتبر ہے۔ لوگ آپ کے اقوال اور تحریروں کو دہراتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ وہ جاوید اختر کو ’کوٹ‘ کر رہے ہیں۔

یہ نام اور مقام تقسیم کے بعد برصغیر میں چند ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے جن کی آواز ہندوستان اور پاکستان میں یکساں ادب اور احترم سے سنی جاتی ہے۔

اگر آج ایسے ناموں کی ایک فہرست بنائی جائے تو گنتی 10 سے آگے نہیں جائے گی کیونکہ بیچ میں نفرتوں کی آگ کا ایک ایسا لا امتناہی سلسلہ ہے جس میں زرد صحافت اور سیاہ سیاست 75 سالوں سے مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔

چنانچہ دونوں طرف کے ابلاغی اور سیاسی گدھ مجھے کلبھوشن جادیو (انڈین نیوی افسر جو مبینہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے لیے آیا اور گرفتار ہے) اور آپ کو اجمل قصاب یاد دلاتے  رہتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہو تو وقت کا مرہم زخموں کو بھر سکتا ہے۔ فاصلوں کو کم کر سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے میں آپ جیسے مہان لوگ گدھوں، قاتلوں اور جاسوسوں کے مشن پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔ انہیں ناکام بنا سکتے ہیں۔

پاکستان میں 22 اور بھارت میں 100 کروڑ سے زیادہ لوگ بستے ہیں۔ یہاں ہر دوسرا شخص ’قصاب‘ اور وہاں ہر کوئی ’کلبھوشن‘ نہیں۔

دونوں اطراف کے لوگ جاوید اختر سے ماضی کے مرثیے نہیں مستقبل کے نغمے سننا چاہتے ہیں۔

مرثیے سننے کے لیے مجھے اور آپ کو اپنے اپنے ٹیلی ویژن کا بٹن ہی تو آن کرنا ہے۔

میں انڈیا نہیں جا سکتا مجھے سرکار ویزہ نہیں دیتی اور ویزا مل جائے تو ہوٹل کا کمرہ نہیں ملتا مگر میں آپ کو ہر بار اور بار بار پاکستان بلاؤں گا۔

کبھی فیض کے لیے، کبھی غالب کی خاطر اور کبھی اردو کے بہانے۔

اور میں چاہوں گا کہ میں نے ’پلکوں پہ جو تمنائیں سجا رکھی ہیں‘ اور دل میں ’امید کی جو سو شمعیں جلا رکھی ہیں‘ آپ انہیں بجھانے نہیں جلا بخشنے آئیں گے۔

آپ صرف ’احسان جتانے‘ نہیں مجھ سے محبت بڑھانے آئیں گے کیونکہ میری طرح یقیناَ آپ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہوں گے کہ

محبت ایسا دریا ہے

کہ بارش روٹھ بھی جائے

تو پانی کم نہیں ہوتا

آپ کا مخلص

اسلام آباد

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ