جاپان: سمورائی تلواروں کا شہر جہاں اب صرف چھریاں، چاقو بنتے ہیں

چھریوں، چاقوؤں اور تیز دھار والے دوسرے آلات جیسے قینچی کی برآمدات گذشتہ سال جاپان میں ریکارڈ بلندی پر پہنچیں۔

جاپان کے ایک شہر میں جو کبھی سمورائی تلواریں بنانے کے لیے مشہور تھا اب کاریگر باورچی خانے میں استعمال ہونے والی چھریوں اور چاقوؤں کو تیز کرتے اور چمکاتے نظر آتے ہیں لیکن ان کا چھوٹا سا کارخانہ پورا زور لگا کر بھی عالمی مانگ کو پورا نہیں کر سکتا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چھریوں، چاقوؤں اور تیز دھار والے دوسرے آلات جیسے قینچی کی برآمدات گذشتہ سال جاپان میں ریکارڈ بلندی پر پہنچیں۔

 اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے گھر میں کھانا پکانے میں تیزی آئی۔

 جاپانی چاقو بھی شوقیہ اور پیشہ ور باورچیوں میں مقبول ہو رہے ہیں، جو ان کی درستی کے ساتھ کاٹنے کے عمل، نفاست اور زیادہ دیر تک کارآمد رہنے کی تعریف کرتے ہیں۔

سیکی کے وسطی شہر میں سومی کاما کٹلری کے سربراہ کاتسومی سومی کاما کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور روایتی دستکاری کے امتزاج نے جاپانی چاقوؤں اور چھریوں کو مقبول بنایا ہے۔

بہترین سوشی بنانے اور بڑا گوشت کاٹنے کے لیے درکار زبردست تیزی حاصل کرنے کی خاطر کمپنی ایسی مشینوں کا استعمال کرتی ہے جو ایک ملی میٹر کے ایک ہزارویں حصے تک درستی کی ضمانت دیتی ہیں۔ اس کے بعد کاریگر ہاتھ سے کام انجام دیتے ہیں۔

سومی کاما نے اے ایف پی کو بتایا کہ لیکن ’ہم طلب پوری نہیں کر سکتے۔ ہم دیکھ رہے کہ طلب اس سطح سے بڑھ گئی ہے جو وبا سے پہلے تھی۔‘

سیکی شہر کی دھار کی مشہور مہارت 14ویں صدی سے چلی آ رہی ہے جب شہر اپنے بھرپور قدرتی ماحول کی بدولت تلواریں بنانے والا بڑا مرکز بن گیا تھا۔

جب پیشہ ور سمورائی جنگجوؤں کو 1876 میں اپنی تلواریں چھوڑنے کا حکم دیا گیا تو تلوار سازی کی صنعت زوال پذیر ہو گئی لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد شہر شہر میں برآمد کرنے کے لیے جیبی چاقو تیار کرنا شروع کر دیے گئے۔

پہلے تو کاروبار پھلا پھولا اور ین سے ڈالر کی مقررہ شرح کے ساتھ  امریکہ کو بڑے پیمانے پر برآمدات منفعت بخش کام تھا لیکن جب یہ پالیسی 1970 کی دہائی میں ختم ہوئی اور چین نے سستی مصنوعات بنانا شروع کیں تو جاپان مزید مقابلہ نہیں کر سکا۔

حقیقی طور پر عالمگیر

سومی کاما کا کہنا ہے کہ وہ وقت مشکل تھا۔ سیکی کے چاقو سازوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں نئی سمت کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اُس وقت، جرمن مصنوعات، بشمول زولنگ کمپنی کے چاقوؤں نے اعلیٰ معیار کی بدولت مارکیٹ پر قبضہ جما لیا اور جاپان کے خوبصورت دکھائی دینے والے چاقو خریداری کے لیے زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں رہے۔

90 کی دہائی میں سومی کاما نے کچن میں استعمال کے لیے اعلیٰ معیار کے چاقو متعارف کروائے۔ ہر چاقو کی قیمت کئی ڈالر تھی۔ ان کے جاپان میں تیار ہونے کی حقیقت پر زور دینے کے لیے ان کی کمپنی دھات کو دو قسم کی لہردار شکل دیتی ہے، جس سے اس کو سمورائی دھار کی روایتی شکل مل جاتی ہے، جب کہ اس پر کانجی کردار کا لوگو بنایا جاتا ہے۔

یہ طریقہ کامیاب رہا اور اب یہ کمپنی 50 ملکوں کو لگژری چاقو فروخت کرتی ہے۔

چاقو کی دھار

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ریستوران چلانے والے فرانسیسی شیف اولویئر اودوس کے نزدیک جاپانی چاقو کی شاندار دھار اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے مطابق: ’یہ بڑی صفائی کے ساتھ کاٹتی ہے۔ یہ سیدھا کاٹتی ہے۔ یہ باضابطہ ہے۔ اس سے پکانے کا معیار تبدیل ہو جاتا ہے۔‘

اودوس کا مزید کہنا تھا کہ ’جاپانی چاقوؤں کی دھار باقاعدہ پتھر پر رگڑ برقرار رکھنا پڑتا ہے اوراگر آپ ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں تو یہ طویل عرصے تک کارآمد رہتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا