ایک ایرانی وزیر کے مطابق ملک میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنے کے لیے ’کیمیائی مرکبات‘ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں جان بوجھ کر زہر دیا جا رہا ہے۔
ایران کے نائب وزیر صحت یونس پناہی نے اتوار کو مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا ’بعض لوگوں نے تمام سکولوں، خاص طور پر لڑکیوں کے سکولوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔‘
گذشتہ سال نومبر سے لے کر اب تک سکول کی طالبات میں سانس کے ذریعے زہر دیے جانے کے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے۔
زیادہ تر مذہبی شہر قم میں یہ کیس سامنے آئے۔ زہر کی وجہ سے درجنوں لڑکیاں ہسپتال میں داخل ہو چکی ہیں۔
ایران کے دارالحکومت تہران اور اردبیل کے شمال مغربی شہر سمیت چار شہروں میں کم از کم 14 سکولوں کو ہدف بنایا گیا۔
زہر دیے جانے کا واقعہ سب سے پہلے قم میں رپورٹ کیا گیا جو ایران کے مذہبی رہنماؤں اور دینی مدارس کا مرکز ہے۔
یہ شہر دارالحکومت تہران سے 100 میل کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ بیمار پڑنے والے طلبہ کے والدین محکمہ تعلیم کے حکام سے’وضاحت کے مطالبے‘ کے ساتھ قم کے گورنر کے دفتر کے باہر جمع ہوئے۔
سینکڑوں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ’ہم غیر محفوظ سکول نہیں چاہتے‘ اور ’سکول لازمی طور پر محفوظ ہونے چاہییں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زہر سے متاثرہ طلبہ نے متاثرین نے متلی، سر درد، کھانسی، سانس لینے میں دشواری اور دل کی دھڑکن ہونے کی علامات کے بارے میں بتایا۔
صوبہ لورستان کے نائب گورنر ماجد مونیمی نے اتوار کو بتایا کہ مبینہ طور پر بروجرد کے ایک ہائی سکول میں 50 لڑکیوں کو زہر دیا گیا۔
پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے گذشتہ ہفتے زہر دیے جانے کی رپورٹ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ ابھی تک زہر دینے کے الزام میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
نوجوان لڑکیوں کو سکول سے دور رکھنے کا دانستہ عمل ایران کی اسلام پسند قیادت کے خلاف 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد شدید احتجاج کے مہینوں بعد سامنے آیا۔
امینی کو ملک کے لباس سے متعلق سخت ضابطے کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا۔
یہ مظاہرے ان چار دہائیوں سے جاری حکمرانی کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔ تہران نے بدامنی کا الزام بیرونی طاقتوں پر عائد کیا۔
ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نیوز ایجنسی کے مطابق ستمبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے کم از کم 470 مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 64 کی عمریں 18 سال سے کم تھیں جب کہ 18 ہزار 200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
© The Independent