ظل شاہ کی موت حادثے سے ہوئی، پی ٹی آئی قیادت آگاہ تھی: پولیس

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ظل شاہ کی موت پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے نائب صدر کی گاڑی کی ٹکر سے ہوئی ہے جس سے قیادت آگاہ تھی۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور نگراں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی ہفتے ہو مشترکہ نیوز کانفرنس کر رہے ہیں (تصویر: ایوان وزیر اعلی پنجاب)

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی ورکر کی موت پر جھٹکا لگا کیوں کہ ہم نے ایسے تشدد کی اجازت نہیں دی تھی۔ ہمارے پاس انفارمیشن آئی کہ وہ بندہ تشدد سے نہیں مرا، اس انفارمیشن کے بعد ہم نے تحقیقات شروع کیں۔‘

پنجاب کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ظل شاہ کی موت پولیس تشدد میں نہیں بلکہ اسی پارٹی کے سینٹرل پنجاب کے نائب صدر کی گاڑی کی ٹکر سے ہوئی ہے اور پی ٹی آئی قیادت اس سے بخوبی آگاہ تھی۔

نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آئی جی پنجاب نے ہفتے کو مشترکہ پریس کانفرنس میں واقعے کی تفصیلات میڈیا کو بتائیں۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’لیاقت علی نامی شخص کی اپیل سے تین دن قبل پولیس تفتیش شروع کرچکی تھی جب معصوم شخص کی لاش، چھ بجے کے بعد ایک کالے رنگ کی ویگو نے سروسز ہسپتال پہنچائی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ان معلومات کو ٹریک کیا، ایک لیٹر ایشو کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اگر اس شخص کی  ہلاکت میں  پولیس کی زیادتی یا تشدد ثابت ہوا تو ذمہ داروں کے خلاف انتہائی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ’ہم نے 31 کیمروں کی مدد سے ایک گاڑی ٹریس کی اور جی بی سکیورٹیز کی بیسمنٹ سے برآمد کی۔ جی بی سکیورٹیز یعنی گل بہار سکیورٹیز کی وارث شاہ روڈ کی بیسمنٹ سے وہ گاڑی برآمد ہوئی جس کے پیچھے اسے (ظل شاہ) ڈالا گیا تھا۔ گاڑی میں اس کا خون موجود ہے۔ فرانزکس کرا لی گئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پتہ چلا کہ یہ گاڑی 6:24 پر ڈیوائڈر سے اس شخص کو ڈال کر نکلی۔ 6:31 پر سی ایم ایچ کے سامنے لے کر جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ گیٹ سکیورٹی کی وجہ سے بند ہے۔ وہ مختلف چوکوں سے ہوتے ہوئے اس کو لے کر 6:52 پر سروسز ہسپتال پہنچ جاتی ہے۔‘

آئی جی نے بتایا جہاں یہ حادثہ ہوا، وہاں گاڑی ڈیوائڈر سے لگتی ہے، وہ مقام لاہور میں ہے اور اس کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔

آئی جی پولیس کے مطابق اس کمپنی کے مالک کا نام راجہ شکیل ہے جو پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کے نائب صدر ہیں اور ان کی اس شخص کو قتل کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی۔

نگراں وزیر اعلی محسن نے کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ’ایک بات چیت شروع  ہوئی جس میں کہا گیا کہ اس بدقسمت شخص کی موت کو استعمال کیا جائے اور پولیس اور سسٹم  کے خلاف استعمال کیا جائے، لیکن یہ سازش ناکام ہوئی۔

’ہماری تکنیکی ٹیم نے پتا چلایا ہے کہ کس وقت کس سیاستدان سے کیا بات چیت ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے میڈیا کو بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے راجہ شکیل نے یاسمین راشد کو فون کرکے واقعے کی اطلاع دی اور بتایا کہ ہم سے ایک ایکسیڈنٹ ہوا، جس میں ایک بندے کی موت ہوگئی ہے۔

اس کے بعد یاسمین راشد انہیں کہتی ہیں آپ صبح (نومارچ) کو زمان پارک آجائیں، وہاں آپ کی ملاقات دیگر لیڈرز کے ساتھ کرائی جائے گی۔

محسن نقوی نے بتایا: ’وہ لوگ اگلے دن زمان پارک پہنچے، راجہ شکیل ڈرائیور کو گاڑی میں چھوڑ کر اندر چلے گئے، یاسمین راشد اندر جاکر ساری تفصیل اپنے لیڈرز کو بتاتی ہیں اور باہر آکر انہیں کہتی ہیں میں نے سارا بتا دیا ہے آپ جائیں  اور آرام کریں۔ اس کے بعد وہ لوگ انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔‘

ان کے مطابق دوران حراست راجہ شکیل نے تسلیم کیا ہے کہ ’میں  نے سارا کچھ یاسمین راشد کو بتایا۔ انہوں نے ایک کال زبیر نیازی کو کی لیکن انہوں نے نہیں اٹھائی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان