پی ٹی آئی کارکن کی موت کا مقدمہ قیادت اور کارکنان کے خلاف درج

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کارکنوں کے حملے میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور مرنے والے کارکن علی بلال بھی ان کے اپنے ساتھیوں کے حملے میں زخمی ہوئے جو ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

پی ٹی آئی کی 8 مارچ 2023 کو نکالی جانے والی ریلی پر پولیس آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے (تصویر:انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے گذشتہ روز نکالی جانے والی عدلیہ بچاو ریلی کے دوران قتل کیے جانے والے کارکن علی بلال کی موت کا مقدمہ ڈی ایس پی صابر علی کی مدعیت میں تھانہ ریس کورس میں درج کر لیا گیا ہے۔

اس ریلی کو پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر روک دیا تھا۔

کئی گھنٹے پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں سے کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے کارکن بھی زخمی ہوکر ہسپتال پہنچے۔

مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کارکن دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود کنال روڑ سے مال روڑ کی طرف آئے، راستے بلاک کر دیے، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع کر دی اور پولیس پر ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی کارکنوں کے حملے میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور مرنے والے کارکن علی بلال بھی ان کے اپنے ساتھیوں کے حملے میں زخمی ہوئے جو ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ کارکنان مشتعل تھے اور کہتے رہے کہ وہ عمران خان، حماد اظہر، فواد چوہدری سمیت دیگر رہنماوں کی کال پر حکومت اور ریاستی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘

پولیس نے دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ 

مقتول کارکن علی بلال کے والد لیاقت علی کو رات گئے عمران خان نے اپنی رہائش گاہ بلا کر ملاقات کی۔ لیاقت علی کی جانب سے ان کے بیٹے کو پولیس تشدد سے قتل کیے جانے کا مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانہ ریس کورس میں درخواست بھی دی گئی۔

پی ٹی آئی نے اس ایف آئی آر کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ بلال کو گرفتار کرنے کے بعد مردہ حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا اور الزام پی ٹی آئی قیادت پر لگایا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’علی بلال پی ٹی آئی کے کارکن تھے وہ آٹھ مارچ کو 12 بجے دوپہر پی ٹی آئی کی عدلیہ بچاو ریلی میں شرکت کے لیے گئے۔ مال روڑ پر پولیس نے دیگر کارکنان سمیت ان پر بد ترین تشدد کیا اور وہ جان سے گزر گئے۔

’لہذا تشدد کا حکم دینے والے وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی، لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ سمیت دیگر پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

تاہم ایف آئی آر صرف پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کے خلاف درج کی گئی ہے۔

آئی جی پنجاب آفس کی جانب سے مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم کے واقعے پر  تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

2 رکنی کمیٹی میں ڈی آئی جی ایلیٹ فورس پنجاب اور ایس ایس پی شامل ہیں۔

مراسلہ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ سیاسی کارکنان کے ساتھ تصادم کیسے ہوا، پی ٹی آئی کا کارکن کیسے جان سے گیا۔

تصادم کے دوران کتنے پولیس اہلکار، کتنے کارکنان زخمی ہوئے، تحقیقات کی جائیں گی کہ تصادم کب شروع ہوا اور کب تک جاری رہا۔

جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ

لیکن تحریک انصاف نے اس کمیٹی کو مسترد کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات حسان خاور نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’علی بلال کے قتل پر پولیس کی انکوائری کمیٹی ایک ڈھونگ ہے، علی کو پولیس حراست میں قتل کیا گیا۔ ان کے والد نے سی سی پی او لاہور کو شریک ملزم نامزد کیا ہے۔ ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی، والد کو اس کی میت تک نہیں دی گئی۔‘

 حسان خاور نے اعلان کیا ہے کہ ’ہماری قیادت کا مطالبہ ہے کہ گذشتہ روز ہونے والے خون خرابے اور علی بلال کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے ہم اس کے علاوہ کسی انکوائری یا کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔‘

علی بلال کون تھے؟

گذشتہ روز قتل ہونے والے کارکن علی بلال 2010 سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ تھے۔

پی ٹی آئی کے جہاں بھی لاہور میں جلسے جلوس ہوتے تھے علی وہاں آگے آگے پرچم اٹھائے دکھائی دیتے تھے۔ 

لاہور میں کام کرنے والے صحافی اور پی ٹی آئی کے مقامی رہنما بھی انہیں اچھی طرح جانتے تھے تاہم مرکزی قیادت کو کل ہی معلوم ہوا کہ وہ کون تھے۔

پی ٹی آئی کے اوائل سے میڈیا سیل میں کام کرنے والے ملک اشتیاق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’علی بلال کو پیار سے ظلے شاہ کہا جاتا تھا وہ بہت پیارا نوجوان تھا۔ ہر تقریب میں موجود ہوتا اور بھر پور جوش وخروش سے آگے بڑھ کر نعرے لگاتا تھا۔‘

ملک اشتیاق کے بقول: ’جب جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کیا اور انہیں باغی کا لقب دیا جاتا تو ظلے شاہ بھی خود کو باغی کہنے لگے مگر جب جاوید ہاشمی نے پارٹی چھوڑی تو انہوں نے بھی اس لقب کو خود سے علیحدہ کردیا۔

’جب ماڈل ٹاون واقعے میں عوامی تحریک کے کارکنوں پر تشدد کی ویڈیو میں ن لیگ کے کارکن گلو بٹ کا نام سامنے آیا تو ظلے شاہ نے بھی بڑی مونچھیں رکھ لیں اور دھرنوں میں آکر مونچھوں کو تاؤ دیتے کہتے میں گلو بٹ کے مقابلے میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا دفاع کروں گا۔‘

علی بلال عرف ظلے شاہ تحریک انصاف کے ہر جلسے جلوس میں وقت سے پہلے پہنچ کر ہی گھومنا پھرنا شروع کر دیتے اور لوگوں سے گپ شپ لگاتے ان کا جذبہ بڑھانے کی کوشش کرتے۔ جب سے عمران خان زمان پارک پہنچے ظلے شاہ بھی اکثر وبیشتر آتے اور پارٹی ترانوں پر بھگنڑے ڈالتے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست