مشکل اور 300 کلو وزنی بم دونوں کو ناکارہ بنایا: اہلکار بم ڈسپوزل

انسپیکٹر عابد فاروق کہتے ہیں کہ ان کے گھر والے ان سے بار بار یہ ملازمت چھوڑنے کا کہتے رہے مگر وہ گھر والوں سے ’جھوٹ بول کر بم ناکارہ‘ کرنے جاتا تھے۔

پاکستان کے شہر کراچی میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار عابد فاروق کہتے ہیں کہ وہ اپنے 20 سالہ کریئر میں 500 کے قریب بڑے بم ناکارہ بنا چکے ہیں۔

عابد فاروق بم ڈسپوزل سکواڈ کراچی غربی ریجن کے انچارج انسپیکٹر ہیں۔

انسپیکٹر عابد فاروق 1992 میں کراچی ضلع وسطی میں کانسٹیبل کے طور پر پولیس میں بھرتی ہوئے اور 1995 میں سپیشل برانچ میں چلے گئے جبکہ 1996 میں انہیں تربیت کے لیے لاہور روانہ کیا گیا۔

لاہور میں ڈیڑھ ماہ سول ڈفینس میں تربیت حاصل کر کے جب وہ واپس آئے تو انہیں بم ڈسپوزل سکواڈ میں تبادلہ کر دیا گیا۔ 1999 میں وہ بم ڈسپوزل سکواڈ میں اسسٹنٹ سب انسپیکٹر (اے ایس آئی) بن گئے۔

انسپیکٹر عابد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’2004 سے اب تک تقریباً 20 سال کے عرصے میں، میں نے 50 سے 300 کلو گرام وزنی بموں سمیت 500 سے زائد بموں کو ناکارہ بنایا، جبکہ 1000 سے زائد ہینڈ گرینڈ اور دیگر چھوٹے بم ناکارہ بنائے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’بڑے سائز کے بموں میں میرے کریئر میں ناکارہ بنائے جانا والا سب سے وزنی بم 2008 میں الآصف منزل، سہراب گوٹھ کے پاس ایک ٹیکسی سے ملا تھا، جو 300 کلو گرام وزنی تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بارے میں انہوں نے مزید بتایا کہ ’ٹیکسی کی ڈگی میں لوہے کے دو بڑے ٹرنک رکھے ہوئے تھے۔ ان میں ہر ٹرنک میں 95 کلوگرام بارود رکھا ہوا تھا اور ٹیکسی کے اندر بھی بارود بھرا تھا۔‘

’اگر ٹیکسی میں رکھا بم پھٹ جاتا تو بہت بڑی تباہی ہوتی۔ بم ناکارہ بنانا بہت ہی مشکل تھا، مگر میں نے وہ مشکل اور 300 کلو گرام وزنی بم بھی ناکارہ بنایا۔‘

کراچی میں 2013 سے 2015 کے درمیان شدت پسندی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔ بقول عابد فاروق ’میں ایک بم ناکارہ کر کے ابھی گھر پہنچتا ہی تھا کہ اطلاع آ جاتی تھی کہ کسی اور جگہ پر بم رکھا ہوا ہے۔‘

عابد فاروق نے بتایا کہ ’گھر والوں نے کہا کہ نوکری چھوڑ دیں۔ میں گھر والوں سے جھوٹ بول کر بم ناکارہ کرنے جاتا تھا۔ جب میڈیا پر گھر والے دیکھتے کہ میں تو بم ناکارہ کر رہا ہوں تو بہت پریشان ہو جاتے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی