حکومت ’کشمیر کوریڈور‘ کی قرارداد سے لاتعلق کیوں ہوئی؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں گذشتہ ہفتے متفقہ طور پر منظور قرارداد میں لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیری خاندانوں کو ملانے کے لیے راہداری کا مطالبہ کیا گیا تاہم اب حکومت اور اپوزیشن اس قرارداد سے لاتعلقی ظاہر کر رہے ہیں۔

پانچ اگست 2019 کے بعد سے لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت اور بس سروس معطل ہے اور چلیہانہ-ٹیٹوال سمیت تمام کراسنگ پوائنٹ بند ہیں۔ جن کو کھولنے کا مطالبہ لائن آف کنٹرول کی دونوں اطراف کیا جا رہا ہے (جلال الدین مغل)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد کا انڈین میڈیا میں خوب چرچا ہے جبکہ اس قرارداد کو منظور کرنے والوں میں شامل اراکین اسمبلی بھی اب اسے ’غیر مناسب‘ اور ’غیر سنجیدہ‘  قرار دے رہے ہیں۔

29 مارچ کو منظور ہونے والی قرارداد میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والے کشمیریوں کے آپس میں ملنے کے لیے کرتار پور طرز کی راہداری بنائی جائے۔

یہ قرارداد حکومتی رکن اسمبلی جاوید بٹ نے پیش کی تاہم بھارت میں میڈیا کی جانب سے اس قرارداد کو وزیر داخلہ امت شاہ کے منصوبے کا تسلسل قرار دیے جانے کے بعد پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے اور حکومت کو نہ صرف اس قرارداد سے لاتعلق ہونا پڑا بلکہ وزیر اعظم کے مطابق اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اس قرارداد سے باقاعدہ دستبرداری کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکومت نے اسی قرارداد کے محرک جاوید بٹ کے ذریعے ایک متبادل قرارداد کا مسودہ بھی اسمبلی میں جمع کروا دیا ہے۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس سمیت کئی کشمیری جماعتوں اور شخصیات نے اس قرارداد پر سوالات اٹھائے ہیں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت سے اس پر وضاحت طلب کی گئی، جس کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویرالیاس اس قراداد کے پیش اور منظور ہونے کے عمل بارے تحقیقات کی یقین دہانی کروائی ہے۔

اس قرارداد کے مسودے سے زیادہ اسے قانون ساز اسمبلی میں پیش کرنے کے وقت کے چناؤ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

قرارداد کی منظوری سے محض ایک ہفتہ قبل بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے لائن آف کنٹرول پر ٹیٹوال کے علاقے میں قدیمی شاردا مندر کے ریپلیکا کا افتتاح بذریعہ ویڈیو لنک کیا اور کرتار پور کوریڈور کے طرز پر شاردا مندر تک رسائی کے لیے ’شاردا کوریڈور‘ کے قیام کے تمام امکانات کا جائزہ لینے کا منصوبہ پیش کیا۔

شاردا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم میں ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کا ایک قدیم مقدس مذہبی مقام ہے جہاں شاردا مندر اور یونیورسٹی کی صدیوں پرانی باقیات آج بھی موجود ہیں۔

اس مقام تک رسائی کا مطالبہ کافی عرصے سے کیا جا رہا ہے اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف اس مطالبے کے حامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

اس قرارداد کے محرک جاوید بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مسودے میں الفاظ کا چناؤ مناسب نہیں تھا اور ایسا ان سے نادانستگی میں ہوا۔ تاہم وہ اس کا الزام خود سے زیادہ ایوان میں موجود سینیئر اراکین اسمبلی کو دیتے ہیں۔

جاوید بٹ کے بقول: ’میں تو نیا بندہ ہوں، ابھی سیکھ رہا ہوں۔ ایک کرتار پور کوریڈور سے تقابل کے علاوہ باقی ساری چیزیں تو ٹھیک ہیں قرارداد میں۔ کرتار پور کوریڈور اور کشمیر کوریڈور پر سینیئر اراکین کو اعتراض کرنا چاہیے تھا اور میری تصحیح کرنا چاہیے تھی مگر وہاں سب نے حمایت میں ہاتھ کھڑے کیے۔‘

اس سوال پر کہ کیا یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل کسی فورم پر پیش کی گئی یا اس کی منظوری حاصل کی گئی، جاوید بٹ کا کہنا تھا کہ یہ ان کا انفرادی عمل اور فیصلہ ہے۔

ان کے بقول ’میں خود منقسم کشمیری خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے سگے بھائی آج بھی لائن آف کنٹرول کے پار رہتے ہیں مگر میں ان سے مل نہیں سکتا۔ یہ قرارداد تمام منقسم کشمیریوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے بس الفاظ کے چناؤ میں تھوڑی لاپرواہی ہو گئی۔‘

سیاسی جماعتوں کا ردعمل

اگر چہ یہ قرارداد گذشتہ ہفتے کے اختتام پر منظور ہوئی تھی تاہم اسے پاکستان یا پاکستان کے زیر انتظام کشمیرمیں میڈیا پر کوئی خاص توجہ نہیں ملی۔

البتہ بھارت کے میڈیا میں اس کا چرچا شروع ہونے کے بعد مختلف سیاسی شخصیات نے  اس پر ردعمل ظاہر کرنا شروع کیا۔ حیرت انگیز طور پر اب اس قرارداد پر تنقید کرنے والوں میں وہ جماعتیں اور ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں جو قرارداد پر بحث اور منظوری کے وقت ایوان میں موجود تھیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر بھی اس وقت ایوان میں موجود تھے۔ مگر اب انہوں نے اس قرارداد کو ’غیر سنجیدہ‘ قرار دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ، ’جاوید بٹ والی قرارداد سنی ہی نہیں۔ یہ غلط ہوا۔ غیر سنجیدہ آدمی نے غیر سنجیدہ ماحول میں یہ کام کیا۔ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ یہ قرارداد کس نے پیش کروائی اور اس کے پیچھے کون تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آئندہ اجلاس میں اس کا ازالہ کیا جائے گا۔‘

اس سوال پر کہ قرارداد پیش کرنے سے قبل اس کا جائزہ لینے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے؟

قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری لطیف اکبر نے بتایا کہ حکومتی ممبران کی طرف سے آنے والی تمام قراردادیں اصولی طور پر پہلے پارلیمانی پارٹی یا کابینہ میں پیش ہوتی ہیں اور پھر وہاں سے منظوری کے بعد ہی ایوان میں پیش کی جاتی ہیں۔

’قواعد کار کے تحت ایوان میں پیش ہونے والی قرارداد کے مسودے کا جائزہ ایک کمیٹی لیتی ہے اور آخر میں سپیکر اسمبلی اس کا جائزہ لے کر ہی پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس معاملے میں بظاہر تمام قواعد کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان نے بھی  ’کشمیر کوریڈور‘ کے حوالے سے قرارداد کی منظوری کو افسوس ناک، تشویش ناک اور قابل مذمت عمل قرار دیتے ہوئے حکومت اور اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ قرارداد سے بلا تاخیر دستبرداری اختیار کی جائے۔‘

’اسمبلی تقسیم کشمیر کی کسی بھی سازش کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ہندوستانی میڈیا چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ کشمیر اسمبلی کی یہ قرارداد ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ شاردا کوریڈور سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ درگاہ حضرت بل اور چرار شریف تک رسائی دی جائے۔‘

پس منظر

پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد لائن آف کنٹرول کے آر پار کئی سالوں سے جاری تجارت اور بس سروس معطل ہو گئی تھی۔

لائن آف کنٹرول کے اطراف کشمیری تجارت اور بس سروس کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم سیاسی قیادت اسے بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی واپسی اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی سے مشروط کر رہی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم لیگ کے صدر شاہ غلام قادر کے بقول ’کسی دوسرے آپشن پر پیش رفت بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کی تائید کے مترادف ہو گا۔‘

’یہ قرارداد پیش کرنے والے رکن اسمبلی تنازع کشمیر سے جڑی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتے۔ پانچ اگست کے اقدام کی واپسی کے بغیربھارت کے ساتھ کسی صورت تعلقات بحال نہیں ہو سکتے اور نہ کسی راہداری یا کوریڈور پر بات ہو سکتی ہے۔‘

’متنازع‘ قرارداد کے محرک جاوید بٹ کون ہیں؟

یہ قرارداد پیش کرنے والے رکن اسمبلی جاوید بٹ کا بنیادی سیاسی تعلق شیخ رشید کی جماعت عوامی مسلم لیگ سے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں جاوید بٹ پی ٹی آئی ٹکٹ پر رکن قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔

انہوں نے ’کشمیر مہاجرین کے لیے مخصوص نشست‘ پر راولپنڈی سے انتخابات میں حصہ لیا اور آٹھ  سو کے لگ بھگ ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔

اس سے قبل وہ آٹو رکشہ کے کاروبار سے منسلک تھے۔

جاوید بٹ کے بقول ان کے والد بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے راولپنڈی منتقل ہوئے جبکہ ان کے سگے بھائی اب بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم ہیں۔

جاوید بٹ اس سے قبل بھی سیاسی تنازعات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپنی ایک تقریر میں ان سے متعلق کہا تھا کہ ’میں نے اپنے رکشہ ڈرائیور کو بھی کشمیر اسمبلی کا رکن بنوا دیا ہے۔‘

جاوید بٹ کو ٹرانسپورٹ کا پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔ گذشتہ سال انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ انہیں ان کے خاندان کےدیگر دو افراد کے ساتھ یورپ کے دورے پر بھیجا جائے تاکہ وہ وہاں ٹرانسپورٹ کے نظام کا جائزہ لے سکیں۔

اس سے قبل کابینہ میں شامل نہ کیے جانے پر جاوید بٹ کی اپنی کمیونٹی سے خطاب کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’یہاں صرف ان لوگوں کو ہی کابینہ میں شامل کر کے وزیر بنایا جا رہا ہے جو پہلے سے امیر ہیں۔ یہ لوگ کسی غریب کو ہر گز موقع نہیں دیتے کہ وہ بھی اپنی غربت دور کر سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا