کیا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ ہوگا؟

انڈیا میں بی جے پی کے کروڑوں حامیوں کو یقین ہے کہ 2024 سے پہلے مودی حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کرکے اسے واپس حاصل کرکے رہے گی۔

چھ اگست 2019 کی اس تصویر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم میں کشمیری شہریوں کو دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

انڈیا کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے چند ہفتوں سے یہ بیانات جاری ہو رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کرکے اسے واپس حاصل کرکے رہے گی، جو 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کے کنٹرول میں چلے گئے تھے۔

گلگت بلتستان نے برصغیر کی تقسیم سے ذرا پہلے میجر براؤن کی سربراہی میں پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا تھا جبکہ انڈیا اور پاکستان کے مابین پہلی جنگ کے دوران جموں و کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے کنٹرول میں آگیا تھا اور لداخ سمیت بقیہ حصے پر انڈیا نے اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔

تقسیم ہند کے بعد سے دونوں ملکوں نے کشمیر کے اس خطے پر اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے کئی جنگیں لڑیں، سربراہ اجلاس کیے اور 11 سے زائد معاہدے وجود میں آئے، لیکن دونوں ملکوں کے بیچ نہ دشمنی ختم ہوئی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر طے پایا۔

آخری سمجھوتہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی سے متعلق تقریباً دو سال قبل طے پایا، جس کی وساطت سے ایل او سی پر رہنے والے ہزاروں خاندانوں کو کچھ راحت نصیب ہوئی ہے۔

مگر جب سے جنگی جنون کو ابھارنے کی کوششیں شروع ہوئیں، اس خطے میں خوف اور اندیشوں نے پھر سے سر ابھارا ہے۔

پاکستان کے ایک دفاعی ماہر کا خیال ہے کہ ’ایل او سی پر جنگ بندی تو اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر انڈیا سرحدوں پر خاموشی کے باوجود اس دوران اپنی فوجی کمک اور اسلحہ جمع کرتا رہتا ہے، جیسا کہ آج کل بھی مشاہدے میں آیا ہے۔

پاکستان کی فوج کو اس کا ادراک ہے اور وہ بھی پوری طرح سے کسی بھی چیلنج کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے تمام ادارے، سیاست دان اور عوام ایک پیج پر ہیں، انڈیا شاید بالاکوٹ ٹائپ کا دوسرا ایڈوینچر کرنا چاہتا ہے۔‘

انڈیا میں بی جے پی کے کروڑوں حامیوں کو یقین ہے کہ 2024 سے پہلے مودی حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کر کے اسے واپس حاصل کر کے رہے گی، جس نے سات دہائی پرانے آرٹیکل 370 کو بغیر کسی جھجھک اور مزاحمت کے آئین سے نکال کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ووٹروں سے کیے گئے ہر وعدے کو پورا کرتی جارہی ہے، جس کی اگلی کڑی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر حملہ کرنا ہے۔

جموں میں بی جے پی کے ایک کٹر حامی اور ووٹر راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ ’جب تک مودی ہیں تب تک سب کچھ ممکن ہے۔ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے وعدے کے مطابق واپس حاصل کرکے دکھائیں گے، ورنہ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لداخ کو الگ کرکے انہوں نے چین جیسے ملک کو ایک نیا چیلنج دیا ہے جو شاہراہ قراقرم پر اربوں ڈالر خرچ کرکے اب مخمصے کا شکار ہوچکا ہے۔ جو شخص چین کو للکار سکتا ہے، اس کے سامنے پاکستان کی کیا وقعت ہے؟ ہماری مسلح افواج کے سامنے پاکستان چند منٹ بھی ٹک نہیں سکتا۔‘

27 اکتوبر کو کشمیر کی سرزمین پر فوج اتارنے کی یاد گاری تقریب کے دوران وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بڈگام میں پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ جلد ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تمام علاقے واپس حاصل کریں گے، جن کے بیان کے فوراً بعد فوجی جنرل نے کہا کہ ’ہم پاکستان پر چڑھائی کرنے کے لیے تیار ہیں اور صرف حکومت کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

ان بیانات سے پورے خطے میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، خاص طور جنوبی ایشیا کے بیشتر عوامی اور دفاعی حلقے ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لینے لگے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا کی تمام تر توجہ اس وقت روس یوکرین جنگ پر مرکوز ہے، جس کے باعث بیشتر ملکوں میں اشیائے ضروریہ کی شدید کمی اور معاشی بدحالی پر قابو پانا اہم ترجیح بن گئی ہے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری چپقلش اور بعض ملکوں میں جاری اندرونی سیاسی انتشار کے باعث انڈیا اپنے حریف ملک پر چڑھائی کرنے کی کھلی دھمکیاں دینے لگا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی طرف سے اسے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انڈین دھمکیوں کا پس منظر وہ حالیہ دورے بھی ہیں، جو چند ہفتے قبل امریکی سفیر اور جرمنی کی وزیر خارجہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کیے ہیں، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کی نشاندہی کرکے اس کا حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔

خیال ہے کہ نئے ورلڈ آرڈر کی تیاری میں پس پردہ چین نے بارہا انڈیا سے کہا ہے کہ جب تک کشمیر تنازعے کو حل نہیں کیا جاتا، اس خطے میں کبھی قیام امن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب چین بھی ایک فریق بن گیا ہے مگر انڈیا نے گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کی دھمکی سے چین کو اشارتاً یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اٹھانے سے خود اپنے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے اور گلگت بلتستان کے اطراف میں اس کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برلن میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہرمین ہرچل کہتے ہیں کہ ’ہندوتوا کے سیاسی پس منظر میں ممکن ہے کہ انڈیا ایسا تجربہ کرے گا لیکن پاکستان کا دفاع اتنا کمزور نہیں ہے کہ وہ آسانی سے اپنے حصے سے دستبردار ہوسکے؟

’یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ سرحد پر فوجی نقل و حمل بڑھ گئی ہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جنگ اگر ہوگی تو دو جوہری ممالک کے درمیان ہوگی۔‘

ہرچل مزید کہتے ہیں کہ انڈیا نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے پہلے عالمی سطح پر کافی حمایت حاصل کی تھی اور اس وقت بھی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے لیکن کوئی ملک ایک اور جنگ کی حمایت کبھی نہیں کرے گا۔ انڈیا کی نظر محض کشمیر پر ہے، گلگت بلتستان کا نام لینے کے پیچھے مقصد محض امریکہ اور یورپی ملکوں کی توجہ حاصل کرنا ہے، جو دھمکی کی حد تک ہی چین کو چاروں طرف سے گھیر لینے کے عمل پر گامزن ہے۔‘

انڈیا نے 1994 میں اپنے زیر انتظام کشمیر کو حاصل کرنے سے متعلق پارلیمان میں ایک قرارداد پاس کی تھی۔ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں ’آزاد کشمیر‘ کے لیے مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں۔

بعض غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق قرارداد کے عمل درآمد پر یورپ میں آباد چند آزاد کشمیریوں کا اعتماد بھی حاصل کیا گیا ہے، لیکن کیا وادی کے حالات اتنے سنبھل گئے ہیں کہ اس کے دوسرے حصے کو جنگ سے حاصل کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوگا۔ یہ بہت اہم سوال ہے جو جنگی جنون ابھارنے سے پہلے انڈین قیادت سے پوچھنا لازمی بنتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ