کاون اور نور جہاں کے نام

کاون میرا کچھ نہیں لگتا لیکن میں روز اس کی خبر گیری کرتی ہوں اسے جنگل میں مٹکتا پھرتا دیکھ کے لگتا ہے کسی گناہ کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ اسی صفحے پہ کاون کے روز و شب کے درمیان فور پاز کی ایک اور پوسٹ لگی دیکھی۔

نور جہاں لاغر و لاچار پڑی تھی اور فور پاز والے وہاں دست بستہ کراچی کے چڑیا گھر میں رہ جانے والی دوسری ہتھنی مدھو بالا کے لیے درخواست گزار ہیں کہ اسے کراچی چڑیا گھر سے نکال کر کسی بہتر جگہ پہنچا دیا جائے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

یہ ذکر ہے 90 کی دہائی کا، ہم بچے اسلام آباد کے چڑیا گھر گئے۔ سردیوں کی سنہری دھوپ میں ایک دیو قامت ہاتھی چند دیواروں میں مقید، زنجیروں میں جکڑا، مستی کے عالم میں جھوم رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی دل پہ ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ تنہائی اور دکھ اگر مجسم کر دیے جائیں تو وہ اس ہاتھی کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ یہ ہاتھی کاون تھا۔

کاون کی تنہائی کے جانے کتنے سو سال گزرے، اس کے ساتھ ہیلی نامی ایک ہتھنی بھی لائی گئی مگر وہ بھی کچھ عرصے بعد مر گئی اور کاون پھر سے تنہا رہ گیا۔

آخر کاون کی تنہائی کی آواز سنی گئی اور یہ خاموشی ایسی گونجی کہ پوری دنیا سے جواب آئے۔ کاون کو دنیا کا تنہا ترین جانور قرار دیا گیا اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی انجمنوں کے چندے اور کاوشوں سے کاون بے چارے کو کمبوڈیا میں ایک ایلیفنٹ سینکچوری میں پہنچایا گیا۔

کاون ہاتھیوں کی اس نسل سے تھا جسے سال کے کچھ مہینے مست کی کیفیت سے دوچار کر جاتے ہیں۔ اس دور میں اس کی آنکھوں اور کانوں سے ایک کڑوا مواد بہہ کر منہ میں جاتا ہے جس سے ہاتھی سخت پریشان ہو جاتا ہے مگر سمجھدار مہاوت، اس وقت میں بھی ہاتھی کو سنبھال لیتے ہیں۔

آج کل کاون اپنے 58 ایکڑ کے جنگل میں دو ہتنھنیوں، ڈیپلو اور سارئے میا کے ساتھ رہ رہا ہے۔

کچھ برس پہلے کمبوڈیا کی سیاحت کے دوران اس سینکچوری کا سوشل میڈیا صفحہ دیکھنا شروع کیا تھا۔ آج میرے دن کا آغاز وہاں کاون کے ناشتے کی ویڈیو دیکھنے سے ہوتا ہے۔

دنیا کا تنہا ترین ہاتھی اب کس قدر خوش ہے کل ہی اسے پانی کی ہودی کے کنارے سارئے میا اور اپنے اوپر پانی پھینکتے دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا۔ کاون کو اب بھی مست کے دورے پڑتے ہیں لیکن اس دور میں اسے زنجیروں سے باندھنے کی بجائے بہتر طریقے سے رکھا جاتا ہے اور دورے کے گزرنے تک مخصوص ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔

کاون میرا کچھ نہیں لگتا لیکن میں روز اس کی خبر گیری کرتی ہوں اسے جنگل میں مٹکتا پھرتا دیکھ کے لگتا ہے کسی گناہ کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ اسی صفحے پہ کاون کے روز و شب کے درمیان فور پاز کی ایک اور پوسٹ لگی دیکھی۔

یہ کراچی کے چڑیا گھر کی ’نورجہاں‘ تھی۔ نور جہاں لاغر و لاچار پڑی تھی اور فور پاز والے وہاں دست بستہ کراچی کے چڑیا گھر میں رہ جانے والی دوسری ہتھنی مدھو بالا کے لیے درخواست گزار ہیں کہ اسے کراچی چڑیا گھر کے ’جہنم‘ سے نکال کر کسی بہتر جگہ پہنچا دیا جائے۔

نورجہاں کا حال دیکھ کے دل دکھا، اسی طرح جس طرح کاون کے لیے دل پھٹتا تھا۔ نور جہاں تو آئی سی یو کے مریض کی سی صحت کو پہنچ چکی ہے۔ اس کا بچنا محال ہے لیکن کیا مدھو بالا کو یہاں سے نکال کے کسی بہتر جگہ نہیں بھیج دینا چاہیے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مدھو بالا افریقی نسل کی ہتھنی ہے اور کراچی چڑیا گھر کے احوال ویسے ہی ہیں جیسے باقی شہر کے۔ یہاں انسان آٹے کی لائینوں میں لگے کچلے جا رہے ہیں یہاں اجنبی سر زمینوں کے ان جانوروں کا خیال کون رکھے گا ؟ ہر کوئی اپنی مونچھ مروڑ رہا ہے اور اپنے ہی پیٹ پہ ہاتھ پھیر رہا ہے۔

ایک کراچی کے ہاتھیوں ہی پہ کیا موقوف، پورے ملک کے چڑیا گھروں کا جو حال ہے وہ بس دیکھتے جایے۔ میں بارہا اپنے کالموں میں ذکر کر چکی ہوں کہ کیا چڑیا گھر ہونے بھی چاہیں؟ مجھے نہ تو کبھی اپنے بچپن میں چڑیا گھر کی سمجھ آئی تھی اور نہ آج میں اس تماشے کو سمجھ سکتی ہوں۔

کچھ جنگلی جانوروں کو ان کے مساکن سے اغوا کر کے پنجروں میں بند کر دیا جاتا ہے تاکہ ہمارے بچے انہیں دیکھ کر تالیاں بجا سکیں۔ یہ تالیاں تو وہ ہمیں اور اپنے دیگر رشتے داروں کو دیکھ کر بھی بجا سکتے ہیں اس کے لیے جانوروں پہ اس ظلم کی کیا ضرورت ہے؟

اگر مقصود یہ ہے کہ اس طرح اگلی نسل کو جانوروں کے بارے میں علم ہو جائے گا تو عزیزو! اگلی نسل کا تو خیر جو ہو گا سو ہو گا اس نسل کا اپنے ہی علاقے، بلکہ اپنے ہی پڑوس میں آباد جانوروں کے بارے میں علم کل ہی کھل گیا۔ ایک مشک بلاو یا بری جو کہ اسلام آباد کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے کل پارلیمنٹ ہاؤس میں گھس آیا۔

یقینا اس کے گھر پہ یا تو کوئی فارم ہاؤس سوسائٹی بن رہی ہو گی یا اس کے مسکن کو کوئی اور نقصان پہنچایا گیا ہوگا۔

اس بری کو ہمارا سارا میڈیا ایک آواز جنگلی جانور، جنگلی جانور پکار رہا تھا۔ کچھ فائدہ ہوا سودیش سے جانور پکڑ پکڑ کے چڑیا گھر بنانے کا؟

فطرت سے پیار کرنا سیکھیے۔ چڑیا گھر نامی ظلم کو ختم کیجیے اور اپنے بچوں کو اپنی دیوار میں سے پھوٹتے پیپل اور آم کے درخت پہ کوکتی کوئل سے محبت کرنا سکھایے۔ ارد گرد کے جنگلوں میں موجود جانوروں اور ان کے مساکن کا احترام سکھایے۔ انہیں جانوروں سے وہ محبت ورثے میں دیجیے جو انسان اور فطرت کے نازک توازن کی ضمانت دیتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ