سارے بولو آمین!

عورتوں کو پردے کے لمبے لمبے لیکچر دینے والوں کی زبان اس وقت بلی کیوں لے جاتی ہے جب ان پردہ دار عورتوں کا حق انہی کے عزیز رشتے دار ہڑپ رہے ہوتے ہیں؟

قوانین بننے چاہیں، فول پروف نظام ہونا چاہیے اور بہت حد تک اس پہ کام بھی ہو چکا ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

آج ہی خبر پڑھی کہ وزیرستان میں 20 خواتین نے اپنا حق لینے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ خبر ہے، کیونکہ عورت کا اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا خبر ہے۔

اب اس خبر کے ساتھ دو باتیں ہوں گی یا تو ان بیس خواتین کو خاندان کے بڑے بوڑھے سمجھا بجھا کے اپنے حق سے دست بردار ہونے پہ مجبور کر دیں گے۔ دوسری صورت میں انہی میں سے کسی ایک پہ خدا نخواستہ فائرنگ ہو سکتی ہے یا کسی اور قسم کا مجرمانہ حملہ بھی ممکن ہے۔

ایسے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں وہ خاتون جو ان کی لیڈر یا مہاڑی ہوں گی، ان ہی کو نشان عبرت بنایا جائے گا اور جب عورت پہ حملہ ہوتا ہے تو اس کی توجیہات ہمارے قانون اور معاشرے میں مرد پہ کیے گئے حملے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔

اگر یہ ہوا تو یہ کیس یہیں دب جائے گا اور بولنے والی خواتین کا ذکر آنے والی نسلیں سرگوشیوں میں کیا کریں گی۔ جو یوں نہ ہوا اور کاتب تقدیر کے قلم کی کسی جنبش سے کہیں ان پوری خواتین کو ضرب تقسیم کر کے وہ حق مل بھی گیا جو مرد سے آدھا ہے تو ایک اور بات ہو گی۔

پہلے تو ان کو معاشرتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پھر یہ پیسہ ان کے گھروں کے وہ مرد جو اس جنگ میں ان کی طرف تھے، شیر مادر سمجھ کے ڈکارنے کو آئیں گے۔ یہ نہ ہوا تو ایک اور بات ہو گی۔ جس جگہ بھی وہ سرمایہ کاری کی کوشش کریں گی، وہاں عورت کو آسان شکار سمجھنے والے یہ پیسہ ہڑپنے کو منہ کھولے بیٹھے ہوں گے۔

ان سب پھندوں سے بچ جانے کے بعد اگر اس پیسے کا کوئی سکھ انہیں مل جائے گا تو پورا معاشرہ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ چہ میگوئیاں ہوں گی کہ کیسی مرد مار عورتیں ہیں۔ مارپیٹ کے اپنا حق لیا اور کیسے دندناتی پھرتی ہیں۔ مجال ہے جو ایک ٹکا کسی کو دیں۔ نہ بھیا، ہم تو شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔ نہ ہم ایسے نہ ہماری عورتیں ایسی۔

ان 20 خواتین کا انجام تو جو ہو گا سو ہو گا، سوال یہ ہے کہ عورتوں کا حق جو ہے بھی آدھا، اسے دیتے ہوئے ہی بھائیوں، شوہروں، جیٹھوں، دیوروں، بھتیجوں کو کیا تکلیف اٹھتی ہے؟ 

(اس سے پہلے کہ کوئی اعتراض کرے کہ سارے مرد ایسے نہیں ہوتے، ہم وضاحت کرتے چلیں کہ سارے نہ سہی، مگر بہت بڑی تعداد میں مرد ضرور موجود ہیں جو عورت کو اس کا حق دیتے ہوئے ڈنڈی مارنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کالم کا موضوع وہی مرد ہیں۔)

سجدوں سے سر نہ اٹھانے والے، اعتکاف میں بیٹھنے والے یا تشکیک پسند بائیں بازو کے لوگ ہوں۔ قل اعوذیے ملا ہوں یا عالم، دیہاتی اڑھب ذہن کے لوگ ہوں یا شہروں کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے مرد، بھائی ہوں یا باپ، بیٹے ہوں یا داماد، بہنوئی ہوں یا جیٹھ، عورت کا حق کھاتے ہوئے پانچوں انگلیاں ایک کیوں ہو جاتی ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیوی کے مرنے پہ شوہر غم زدہ ہوتا ہے لیکن شوہر کے مرنے پہ بیوہ خوف زدہ ہوتی ہے۔ عورتوں کو پردے کے لمبے لمبے لیکچر دینے والوں کی زبان اس وقت بلی کیوں لے جاتی ہے جب ان پردہ دار عورتوں کا حق انہی کے عزیز رشتے دار ہڑپ رہے ہوتے ہیں، اس وقت یہ ان کا خاندانی معاملہ ہوتا ہے لیکن عورت کے سر کا سکارف ریاستوں کے لیے ذاتی مسئلہ بن جاتا ہے۔

وراثت کا قانون، حکم نص ہے۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والا یہ پورا معاشرہ کیا دروں کا مستحق نہیں ہے؟ کیا یہ حدود اللہ سے تجاوز کا معاملہ نہیں ہے؟ جہیز تو بیٹیوں کو اب یہ کہہ کر نہیں دیا جا رہا کہ یہ غیر اسلامی رسم ہے لیکن کیا باپ اور ماں کا ورثہ جس میں جائیداد، زیور کپڑا، فرنیچر، ہر چیز شامل ہے، اس کی تقسیم نہ کرنا اور سب کچھ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پہ بانٹ لینا جائز ہے؟

آج پنجاب کی حد تک تو زرعی جائیداد کی شرعی تقسیم کا بہترین نظام بنا دیا گیا ہے، لیکن وہ بھائی اور مرد رشتے دار کب سدھریں گے جن کے خیال میں بھوک صرف انہیں لگتی ہے اور ایک کی جگہ چار روٹیاں کھانے کا حق بھی انہیں حاصل ہے؟

قوانین بننے چاہییں، فول پروف نظام ہونا چاہیے اور بہت حد تک اس پہ کام بھی ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد جو معاشرتی رویے برداشت کرنے پڑتے ہیں ان کے خوف سے خواتین برضا و رغبت اپنے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔

یاد رکھیے اپنے حق سے کوئی دست بردار ہونا نہیں چاہتا۔ اگر ایسا ہوتا تو کبھی یہ خبر بھی سننے کو ملتی کہ بھائی بہن کے حق میں جائیداد سے دست بردار ہو گیا ہے۔ وہ انگوٹھا جو آپ کے کہے پہ سٹامپ پیپر پہ لگتا ہے۔ وہ بیان جو آنسو پیتے ہوئے تحصیل دار کے سامنے دیا جاتا ہے۔ وہ لرزتا ہوا ہاتھ جو بھتیجے کے سر پہ رکھ کے اسے اپنے باپ دادا کی وراثت چھوڑ دی جاتی ہے، وہی ہاتھ جب خدا کے سامنے اٹھتا ہے تو اس میں حساب کے سوا کوئی سوال نہیں ہوتا۔

حذر کرو اس اٹھے ہوئے ہاتھ سے، حذر کرو اس بد دعا سے جو آج نہ سہی کل سب کچھ پھونک دے گی۔ عورت کا حق کھانا بھی اسی قدر گھناؤنا ہے جس قدر کھوتا کھانا۔ تو قارئین ہاتھ اٹھائیے اور دعا مانگیے کہ خدا کسی کو بھی کسی عورت کا حق نہ کھانے دے۔ سارے بولو آمین!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ