کنبھ کے میلے میں بچھڑنے والے

ریاستوں کے جبر بڑے بڑوں کو ہلا دیتے ہیں مگر جاوید صاحب یہ بھول گئے کہ دہشت گردی کا یہ بھوت پالنے والے نہ فیض صاحب تھے اور نہ ہی اردو کے چاہنے والے۔

جاوید اختر پاکستان میں مختلف حوالوں سے زیرِ بحث ہیں (فیض فیسٹیول سکرین گریب)

ہمارے بچپن میں جب سارے رشتے دار جمع ہوتے تھے تو وی سی آر پر جہاں شدید رومانٹک فلمیں دیکھی جاتی تھیں، وہیں بڑوں کو دھوکہ دینے کے لیے کچھ ایسی فلمیں بھی لگائی جاتی تھیں جن میں کہانی کے ہر خلا کو پُر کرنے کے لیے کچھ ایسے رشتے داروں کو ملا دیا جاتا جو کنبھ کے میلے میں بچھڑ گئے تھے۔

ہوتے ہوتے یہ کہانی اس قدر پِٹی کہ ایک فلم میں ہر ’بھنڈ‘ پر کنبھ کا میلہ آ جاتا تھا اور کامیڈین چلا چلا کر کہتا تھا: ’ہئے بھگوان! تو نے یہ کنبھ کا میلہ کیوں بنایا؟‘

انڈیا اور پاکستان وہ جڑواں بچے ہیں جو شاید ابھی ماں کے پیٹ ہی میں ہیں اور ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ تاریخ میں 75 سال کچھ بھی نہیں ہوتے۔ ابھی تک تقسیم کے دوران بے گھر ہونے والے کنبے، اپنے کلچر، اپنی تہذیب اور اپنی زبان سمیت تاریخ کی اس وادی میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ شاید ان کو کبھی وہ گھر مل جائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

اسی تہذیب کے وارث اردو کے نام پر ان دونوں ملکوں میں اور اردو کی افتادہ بستیوں میں جگہ جگہ میلے بپا کراتے ہیں۔ ان ہی میلوں میں سے ایک میلہ ’فیض میلہ‘ بھی ہے جو ہر سال فروری میں لاہور کے الحمرا کلچرل کمپلیکس میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ میلہ ادب کے چاہنے والوں کے لیے کسی بھی طرح کسی بڑے مذہبی میلے سے کم نہیں۔

اردو کی صورت حال یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس تہذیب کے وارث بلا تقسیم رنگ و نسل اور مذہب اس پر نازاں تھے۔ پھر جانے یہاں سے یا وہاں سے یا پھر بیک وقت دونوں ملکوں سے اس تہذیب کو رد کرنے اور محبت کی اس زبان کو پہلے ہندی اور پھر اردو لکھاوٹ میں بانٹنے اور پھر اردو الفاظ کو مسلمان اور ہندی الفاظ کو ہندو قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ سلسلہ ظاہر ہے دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ نے شروع کیا تھا لیکن ہوتے ہوتے یہ بات یہاں تک پہنچی کہ اوم پوری اور نصیر الدین شاہ اور جانے کیسے کیسے فنکاروں کو اپنی حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ دینے پڑے۔

تقسیم کے بعد بھی دونوں ملکوں کے شاعر ادیب اور عوام محبت کی اس زبان، اردو کے ذریعے آپس میں جڑے رہے۔ وہاں کی محفلوں میں یہاں سے اور یہاں کی محفلوں میں وہاں کے لوگ بلائے جاتے رہے۔ ہمیں وہاں محبت ملتی تھی اور انہیں یہاں پذیرائی۔

محبتوں کی یہ شمع نہ کسی فرد واحد نے جلائی تھی اور نہ کوئی بجھا سکتا ہے۔ سرحد کے پار ہمارے پیاروں کی قبریں ہیں اور سرحد کے اس طرف وہ ہزاروں لاکھوں سمادھیاں، مندر، مکان، کٹڑیاں، دالان، صحن اور چوگان ہیں، جن میں ادھر رہنے والوں کے پرکھے کبھی سانس لیتے تھے۔

اس مشترکہ تہذیبی ورثے کی نفی، بڑے سے بڑے جبر سے بھی ممکن نہیں۔ انڈیا سے جب بھی کوئی ادھر آیا، سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ یہاں سے جانے والوں کو بھی ہمیشہ عزت ملی۔ ایک دل دکھانے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ آج پاکستان میں تو صورت حال شاید وہی ہے لیکن انڈیا میں حالات بدل چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شدھ اردو میں داستانیں سنانے والوں کو پہلے تو زبردستی ہندی کتھائیں پڑھنی پڑھیں پھر ایسی سیریز میں آنا پڑا جن میں وہ پاکستان اور مسلمانوں کو شدت پسند دکھا سکیں۔ اس پر بھی وہ انڈیا میں محفوظ نہیں رہے۔ اپنی گنگا جمنی تہذیب پر فخر کرنے والے اپنے ہی ملک کے ادبی میلوں میں کمروں میں چھپ کے جان بچانے پہ مجبور ہوئے۔

گنگا جمنا کی وادی میں جنم لینے والی ریختی کو زیادہ سے زیادہ سنسکرت سے بھرنا پڑا اور پاکستانی مندوبین کے نام مہمانوں کی فہرست سے کاٹنے پڑے۔ سلسلہ چشتیہ کے زائرین کو بھی وہاں جانے کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور کسی کسی اہم  پاکستانی ادبی شخصیت کو اچانک ’تڑی پار‘ بھی کر دیا گیا۔

اردو والوں کا جو حال وہاں ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی جامعہ میں فیض کی نظم یا جالب کا کلام مزاحمت کی علامت کے طور پر گایا جائے تو لاٹھی چارج صرف اس بات پر ہی ہوتا ہے کہ شاعر پاکستانی تھا۔

امن کی آشا لے کر آنے والے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جانے کس ایجنڈے کی نذر ہوئے اور محبت کی یہ شمع، جسے ہم ادیب اور شاعر اپنے خون جگر سے جلائے ہوئے ہیں، ٹمٹمانے لگی۔

جاوید اختر نے لاہور میں منعقد ہونے والے فیض میلے میں کہا تھا کہ ’ہم بمبئی کے لوگ ہیں۔ ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے، نہ مصر سے آئے تھے۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہیے۔‘

جاوید صاحب کا شکوہ سر آنکھوں پر اور جواب وہی کہ ہم وفادار نہیں، تم بھی تو دلدار نہیں۔ یہ آگ نہ ہماری لگائی ہوئی ہے نہ اس کا شکوہ ہم سے بنتا تھا۔ سوشل میڈیا پر بہت بےمروتی ہو چکی ہے۔

ہم جانتے ہیں ریاستوں کے جبر بڑے بڑوں کو ہلا دیتے ہیں مگر جاوید صاحب یہ بھول گئے کہ دہشت گردی کا یہ بھوت پالنے والے نہ فیض صاحب تھے اور نہ ہی اردو کے چاہنے والے۔

ہوا بس اتنا کہ اس میلے میں جاوید صاحب اپنے بہت سے چاہنے والوں سے بچھڑ گئے اور وہ یہ بھی نہ کہہ پائے کہ ’ہئے بھگوان! تو نے یہ کنبھ کا میلہ کیوں بنایا؟‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر