بھارت میں سینٹرل کونسل آف سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ نئے تعلیمی نصاب میں دسویں جماعت کی کتابوں سے فیض احمد فیض کی دو نظموں کو حذف کر دیا ہے۔
سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) بھارت میں سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں کے لیے قومی سطح کا بورڈ ہے۔ بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق چھبیس ہزار سے زیادہ سکول اس بورڈ سے ملحق ہیں۔ سرکاری خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق کونسل نے یہ حکم 21 اپریل کو جاری کیا ہے۔
ڈیموکریٹک پالیٹکس کا مضمون جس کی کتاب دسویں جماعت میں تقریباً ایک دہائی سے پڑھائی جا رہی تھی اس کے ’مذہبی فرقہ واریت – سیاسی فرقہ واریت، سیکولر ریاست‘ نامی باب میں فیض کی نظموں پر مشتمل پوسٹر نئے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ فیض کی ایک اور نظم کی چند لائنیں اور ایک عدد کارٹون بھی خارج از نصاب کیا گیا ہے۔
بھارتی ویب سائٹ دی کوئنٹ ورلڈ سے لیے گئے اس کارٹون کو نصاب سے ہٹایا گیا ہے جسے بھارت کے مشہور کارٹونسٹ اجیت ننان نے ٹائمز آف انڈیا کے لیے بنایا تھا۔ اس کارٹون میں مذہبی علامتوں کے ساتھ ایک کرسی موجود تھی اور ملکی وزارت اعلیٰ پر طنز کیا گیا تھا۔
India Drops 'Democracy And Diversity', Mughal Courts, Cold War, Food security, Poems By Faiz From CBSE Syllabus. pic.twitter.com/DQ5WcU8sh5
— Suchitra Vijayan (@suchitrav) April 23, 2022
مڈ نائٹ باردڑز نامی کتاب کی بھارتی مصنف سچترا وجین اور دی وائر اردو کے مطابق کتاب سے ہٹائے گئے دیگر مشمولات میں ’جمہوریت اور تنوع‘ نامی باب سمیت مرکزی اسلامی سلطنتوں کے عروج اور ان کی معیشت سے متعلق ایک باب بھی شامل ہے۔
فیض احمد فیض کی مشہور نظم کے جو مصرعے حذف شدہ پوسٹر پہ درج تھے وہ یہ ہیں؛
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
دوسرا حذف شدہ مواد فیض کی مشہور نظم ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ سے متعلق تھا۔
سی بی ایس ای کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دسویں جماعت کے لیے سماجیات کے کورس میں مذہب، فرقہ پرستی اور سیاست کا مضمون تو رہے گا لیکن صفحہ نمبر 46،48 اور 49پر شائع تصویریں نکال دی جارہی ہیں۔
فیض احمد فیض کی نظم ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ ایوب مارشل لا کے دورمیں کہی گئی جب ہتھکڑیاں ڈالے فیض صاحب کو پولیس ایک ٹانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جا رہی تھی کہ راستے میں عوام نے انہیں پہچان لیا اور ان کے ٹانگے کے پیچھے دوڑ پڑے۔
پوسٹر پر درج مصرعے فیض صاحب کی نظم ’ڈھاکہ سے واپسی پر‘ کے ہیں۔ قیام بنگلہ دیش کے تین برس بعد 1974میں وہ ڈھاکہ گئے جہاں سے واپسی پر انہوں نے یہ نظم لکھی۔
فیصلے پر اعتراضات
بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ آکار پٹیل نے اس فیصلے کو ’سطحی‘ قرار دیا جب کہ بھارتی صحافی من امن سنگھ چنّا نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ’فیض نے یہ اشعار ضیا کے آمرانہ دور کی مزاحمت میں کہے تھے۔ آج ہم ایک دوسرے پاکستان کے راستے پر ہیں۔‘
Ironic that CBSE removes Faiz’s “Aaj bazaar mein pa-ba-jaulan chalo” from Class 10 curriculum.
— Man Aman Singh Chhina (@manaman_chhina) April 23, 2022
Faiz wrote these lines against the despotic regime of Gen Zia Ul Haq in Pakistan.
As we hurtle towards becoming another Pakistan, Faiz would have the last laugh. https://t.co/1fKW7zyrWx
بھارتی صحافی ساگریکا نے ’وقت کیسے بدلتا ہے‘ کے عنوان سے ایک تصویر شئیر کی جس میں واجپائی فیض صاحب کا استقبال کر رہے ہیں۔
How times change. 2022: Faiz poems struck off CBSE syllabus. 1981: #AtalBihariVajpayee warmly greets Faiz whose poetry he greatly admired. No one was seen as “anti national” then for admiring a voice from across the border. #FaizAhmedFaiz pic.twitter.com/FpJ11HBczn
— Sagarika Ghose (@sagarikaghose) April 25, 2022
بھارتی نصاب تبدیلی کے راستے پر
مارچ 2022 کے دوران گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے چھٹی سے بارہویں جماعت کے نصاب میں ہندوؤں کی مقدس کتاب ’بھگوت گیتا‘ کو پڑھنا لازم قرار دیا تھا۔ ریاست کی جانب سے جاری سرکلر میں کہا گیا کہ ہندوستانی ثقافت اور افکار نصاب میں شامل کیے جائیں گے نیز بھگوت گیتا میں ذکر کردہ اقدار، اصول اور عقائد کو تمام مذاہب کے لوگ قبول کرتے ہیں۔
ریاست کے وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ بھگوت گیتا کے مضامین کو بعد میں کہانیوں، مباحثوں، ڈراموں اور کوئز وغیرہ کی شکل میں بھی متعارف کرایا جائے گا جس کا خرچ حکومت برداشت کرے گی جب کہ بارہویں جماعت کے لیے گیتا کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2018 میں ایک 14 رکنی کمیٹی تشکیل دی جسے بھارت کی ثقافتی تاریخ پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا تھا کہ بھارت میں موجود تمام افراد خطے کے قدیم ہندو باشندوں ہی کی اولادیں ہیں اور مہابھارت اور وید جیسی ہندو مقدس کتابیں اساطیر نہیں بلکہ وہ اسی طرح حقائق پر مبنی ہیں جیسے مسلمانوں کی مذہبی کتاب کو سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کو از سر نو لکھنے والی اس کمیٹی میں ماہرین تعلیم، دانشوروں سمیت آثار قدیمہ کے ماہرین شامل کیے گئے۔ کمیٹی کے چودہ میں سے بارہ ارکان سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے بات کی جس کے بعد ادارے کا موقف تھا کہ ’بھارت میں ہندو انتہا پسند قوتیں اپنا اثرورسوخ سیاسی میدان سے آگے بڑھاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی خواہاں ہیں کہ بھارت ہندوؤں کا ملک ہے اور یہ ہندوؤں کے لیے ہی ہے۔‘
بھارتی آئین دلت ذات سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون ڈاکٹر امبیدکر کی سربراہی میں بنایا گیا تھا جس کے تحت تمام مذاہب، عقائد اور ثقافتوں کو بھارت میں برابر حیثیت دی گئی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی بھارت کے سیکولر تشخص کو برقرار رکھنے کے خواہاں تھے۔ پنڈت نہرو کے بعد پہلی سات دہائیوں کے دوران بھارت کی سیکولر پالیسی بہرحال جاری رہی۔
بھارت کی سوا ارب آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔
کیمپس فرنٹ نامی طلبا نمائندہ بھارتی تنظیم نے حالیہ نصابی تبدیلیوں کے خلاف اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔
Deleting Chapters on Islamic Empires and Faiz's Poem from CBSE Textbooks: Illustrates Blind Hatred and Hindutva Intolerance. pic.twitter.com/VgtbAjfxT2
— Campus Front of India (@CampusFrontInd) April 24, 2022