اور بلبوں میں روشنی نہ رہی!

بتی جاتی بھی رہتی ہے، آتی بھی رہتی ہے لیکن اب جب کبھی بتی جائے گی مجھے روانڈا کی یاد آئے گی۔

ابھی کچھ روز پہلے بجلی کا طویل ترین بریک ڈاؤن ہوا۔ شومئی قسمت اسی روز ایک جگہ خاصی اہم تقریب تھی۔ میزبان نے حسب مقدور جنریٹر جلا کر روشنی کر رکھی تھی (پکسابے)

غور سے دیکھیں تو ہمارے آس پاس کچھ ایسے بزرگ بھی پائے جاتے ہیں جو بس پڑے پڑے ’سینئیر‘ ہو گئے۔ اس اتفاقی ’سنیارٹی‘ کے باعث جہاں ان میں دیگر خواص پیدا ہوئے وہیں ایک اہم ترین خاصیت، جملہ حاضرین کو جی بھر کے دہلانا اور ان میں مایوسی، یاسیت اور قنوطیت کے جذبات کو ابھار کے اس کیفیت سے حظ اٹھانا بھی ہے۔

ان بزرگوں نے چند ایک کتابوں کے دو ایک اقتباسات، رومی، سعدی، غالب، اقبال کے فارسی اشعار، مشاہیر کی زندگیوں کے چند غیر مقبول اور متنازع واقعات رٹ رکھے ہوتے ہیں۔ اس توشے کو بغل میں مار کے یہ ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی محفل میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی ایک خاصیت خود کو ہر جگہ مدعو کروا لینا بھی ہوتی ہے۔

لباس میں یہ عموماً بد قطع تھری پیس سوٹ، موسم کے حساب سے مفلر یا ایک پھندا نما ٹائی لگا کر آتے ہیں۔ محفل میں پہنچنے کے بعد یہ میزبان پر احسان جتاتے ہیں کہ ان کو فلاں فلاں نے الاں الاں سے ملوانے کے لیے فلاں فلاں جگہ بلا رکھا تھا مگر وہ اپنی متواضع اور سادہ فطرت سے مجبور ہو کے میزبان کے غریب خانے پر حاضر ہو گئے ہیں۔

میزبان غریب ابھی ان کے احسان کے بوجھ تلے دبا، کچھوے کی طرح رینگ ہی رہا ہوتا ہے کہ یہ حاضرین میں سے سب سے سادہ اور نسبتاً جلد دہل جانے والے شخص یا اشخاص کو تکا لیتے ہیں۔ سرکتے سرکتے یہ اپنے شکار تک پہنچتے ہیں اور نہایت نپے تلے لفظوں میں اپنی بقراطیت کا پٹارہ کھولتے ہیں۔

ان سب کے پٹارے میں سے اکثر ایک ہی جملہ برآمد ہوتا ہے، ’قومی ترانہ، پاکستان کا قومی ترانہ سنا ہے آپ نے، سوائے ایک لفظ کے سب فارسی الفاظ ہیں، ویسے اردو کی بھی ایک ہی کہی، یہ تو لشکری زبان ہے، ادھر ادھر کی زبانوں کے الفاظ کی بھرمار ہے۔‘

اس کے بعد وہ بڑے بڑے لوگوں کے معاشقوں اور زندگی کے پوشیدہ گوشوں کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے بچپن میں ان کے ساتھ ’کھو کھو‘ اور ’برف پانی‘ کھیلتے رہے ہوں۔ اس گفتگو کو کسی خوبصورت موڑ پر چھوڑ کے یہ فوراً ہی نئے زمانے، نئے طور طریقوں، نئے لکھنے والوں، نئے ڈراموں اور نئے لوگوں کو کوستے ہیں اور اپنے وقت کی مبینہ وضع داریوں میں کھو سے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے وقت میں اگر کسی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ دفاع کی کوشش کرے تو فٹ ترپ کا پتہ کھیلا جاتا ہے، جو دنیا کی تاریخ سے نکالے ہوئے کسی بھی مبینہ بھیانک واقعے کی بھیانک ترین تمثیل ہو تی ہے، جس کو سنتے ہی حاضرین کی ٹانگوں میں سے جان نکل جاتی ہے اور وہ سہم کر ایک کونے میں جا بیٹھتے ہیں اور تادیر ناخن چبا چبا کے آنے والے وقت سے لرزتے رہتے ہیں۔

ادھر یہ صاحبان اپنی کارروائی پوری کرنے کے بعد شاداں و فرحاں ٹھٹھے لگاتے ہوئے اگلی محفل تک کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔

ابھی کچھ روز پہلے بجلی کا طویل ترین بریک ڈاؤن ہوا ۔ شومئی قسمت اسی روز ایک جگہ خاصی اہم تقریب تھی۔ میزبان نے حسب مقدور جنریٹر جلا کر روشنی کر رکھی تھی۔ وہیں ایک صاحب جو پڑے پڑے خاصے ’سینیئر‘ ہو چکے ہیں جانے کیا سوچ کے میرے قریب آ کے بیٹھ گئے اور اپنی معلومات کا اظہار کرنے لگے۔

پہلے انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کو پتہ ہے لاہور کے کتنے دروازے ہیں؟ پھر بتایا کہ 12 دروازے اور ایک موری ہے، پھر ان دروازوں کے نام بھی بتائے جو کہ یقیناً بڑی جانفشانی سے یاد کیے گئے تھے۔

اس کے بعد ایک مشہور مغنیہ کے مشہور ترین معاشقے کو ایسے بیان کیا کہ جیسے تمام واقعات ان کے سامنے پیش آئے ہوں۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد، رومی کی مثنوی سے ایک مشہور ترین اقتباس ایسے سنایا جیسے روئے زمین پر ان کے علاوہ کسی کو اس شعر کی قرات نصیب نہ ہوئی ہو۔ اس کے بعد ٹھہر ٹھہر کے اس کا لفظی ترجمہ کیا اور میرے علم میں گوناگوں اضافہ کیا۔

ایسے اصحاب، اپنے شکار کے سامنے دو تین طرح کے موضوعات پر ادھر سے ادھر ہوتے رہتے ہیں تاکہ غریب کسی صورت بھاگ نہ سکے۔ ابھی میں رومی کے فلسفے پر سر دھن رہی تھی کہ انہوں نے بتایا کہ ہم ’منٹو‘ لفظ کا تلفظ غلط کرتے ہیں اور انڈیا پاکستان میں بننے والی دونوں فلموں میں منٹو کا نام غلط بتایا گیا ہے۔ منٹو پر ان کی دسترس دیکھ کے خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے جنریٹر کی گھوں گھوں سے گھبرا کے کہہ دیا کہ ’آخر بجلی کب آئے گی، کم بخت صبح سات بجے سے غائب ہے۔‘

اتنا سننا تھا کہ موصوف بہت کچھ جاننے والے انداز میں مسکرائے اور خلاؤں میں کسی غیر مرئی شے کو تکتے ہوئے بولے، ’روانڈا میں ایک بار بجلی گئی۔۔۔۔‘

یہ الفاظ ابھی ان کے منہ میں ہی تھے کہ جنریٹر بند ہو گیا اور بجلی آ گئی۔ میں طنزیہ نظروں سے انہیں دیکھنے ہی والی تھی کہ بجلی ایک بار پھر چلی گئی اور وہ صاحب فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھتے محفل سے ایسے نکلے جیسے روانڈا سے نکل رہے ہوں۔

بتی جاتی بھی رہتی ہے، آتی بھی رہتی ہے لیکن اب جب کبھی بتی جائے گی مجھے روانڈا کی یاد آئے گی۔ خدا ایسے لوگوں کو سلامت رکھے، دنیا کی رونق انہی پر منحصر ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ