سردی رخصت ہوتی ہے، گلابی رت آتی ہے، شامیں سرد ہو جاتی ہیں اور نیم شب اوس گرتی ہے۔ آموں میں بور پڑتا ہے اور لیموں کے پودوں پہ پھول آتے ہیں، ہولی پھنکتی ہے اور اس کے ساتھ ہی آٹھ مارچ کا دن آجاتا ہے۔
یہ دن آنے کی دیر ہوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جانے کس کس کونے کھدرے سے ایسے لوگ برآمد ہونے لگتے ہیں جنہیں اچانک احساس ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں عورتیں بھی موجود ہیں اور ان عورتوں کو گونا گوں مسائل کا سامنا بھی ہے۔
یہ خیال آتے ہی وہ چشمے سنبھالتے، پیٹیاں کستے، کھنکھارتے، ان بے چاری عورتوں کی مدد کو کود پڑتے ہیں۔ اب آپ سوچتے ہوں گے کہ آج کی عورت کے مسائل اور ان کے حل کے لیے یہ بزرگ اور نیم بزرگ کیوں کر اور کس طرح فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں؟
اگر یہ سوال آپ کے ذہن میں آتا ہے تو آپ بہت بھولے ہیں۔ یہ صاحبان ہمارے وہ ہمدرد ہیں جو اس راز کو جان گئے ہیں کہ یہ عورتیں جو آٹھ مارچ کو پلے کارڈ اٹھا کر عورتوں کے حقوق کے لیے سڑک پہ نکل آتی ہیں ہمارے اصل مسائل نہیں جانتیں۔
جی ہاں، یہ تو وہ خواتین ہیں جو فقط تصویر کھنچوانے اور جملہ خواتین کو گمراہ کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہیں اور ہر برس بہت سی خواتین کو گمراہ کر کے اور راہ راست سے بھٹکا کر ایک برس کے لیے پھر سے سرمائی نیند سو جاتی ہیں۔
پس ان خواتین سے نمٹنے کے لیے ہمارے معاشرے کے ہمدرد مرد فروری ہی سے کوسنے پیٹنے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ مارچ آتے آتے اس سلسلے میں شدت آجاتی ہے اور پھر عورت مارچ کے دن ان کے سرغنہ باہر نکل آتے ہیں۔ کوئی اکیلی عورت کسی نیوز چینل پہ مل جائے تو اسے لفظو ں ہی سے پھاڑ کھاتے ہیں۔ اگر یہ موقع نہ ملے تو اجتماعی طور پہ گالم گلوچ تو کر ہی لیتے ہیں۔
یہ صاحبان بتاتے ہیں کہ عورت کے اصل مسائل کیا ہیں۔ یہ عورت کو اس کی حد بتاتے ہیں، اس کے حقوق کا تعین کرتے ہیں، اس کے لباس کے لیے خاکہ وضع کرتے ہیں، اس کی گفتگو کا ڈھنگ متعین کرتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کس حد تک ڈھیل دی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان سبھوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کام کرنے کی جگہ پہ عورت کے مسائل، ہراسانی، علیحدہ واش روم اور ڈے کیئر کا ہونا نہیں ہے، بلکہ عورت کے کچھ اور مسائل ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ گھر میں بیٹھی عورت کا مسئلہ گھریلو تشدد، ذہنی تشدد اور تولیدی صحت نہیں بلکہ ان کا مسئلہ کچھ اور ہے۔
یہ لوگ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ کاروبار کرنے والی عورت کے لیے ذرائع آمدورفت اور اور بینکنگ سے واقف ہونا، ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھنا قطعاً ضروری نہیں بلکہ ان کے مسائل کچھ اور ہیں۔
حیرت انگیز طور پہ یہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خواتین کی ذہنی صحت اور اس سے منسلک مسائل اصل میں ایک ڈھکوسلا ہے۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے میں ڈنڈی مارنا، ان کے مال کو مال مفت سمجھنا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
عورت کا اپنی شناخت کے لیے کچھ کرنا، یہ تو خیر ہے ہی قطعاً ایک ایسی حماقت، جس کا عورتوں کو بالکل بھی اندازہ نہیں۔ فہرست طویل ہے سطریں کم ہیں اور تجاویز بے شمار ہیں۔
مختصرا، آٹھ مارچ کے تمام پروگراموں ، ریلیوں اور حد یہ کہ نجی محفلوں کی گفتگو میں بھی ہمارے یہ خیر اندیش، ہمارا منہ توڑتے اور ہمیں یہ سمجھاتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے اصل مسائل یہ نہیں۔
چوں کہ یہ راز کھولتے ہوئے یہ صاحبان جذباتی طور پہ اتنے منتشر ہوتے ہیں کہ یہ سوال دل ہی دل میں رہ جاتے ہیں۔
میں جانتی ہوں کہ یہ سب قطعاً خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اپنی توانائی صرف کر رہے ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ آخر ہمارے اصل مسائل کیا ہیں؟
بہت ممکن ہے کسی دن یہ لوگ اس کیفیت سے باہر نکل کر ہمیں ہمارے اصل مسائل اور ان کا حل بتائیں گے۔ جب تک یہ اپنی تقاریر کو ثقیل بناتے ہیں، یہ جو عورت مارچ والی خواتین ہیں ان ہی کو بولنے دیجیے۔ بقول شخصے جو دال دلیہ ہے حاضر ہے، گر قبول افتد زہے عزوشرف۔