خواتین کے حقوق: پاکستان اپنے ہمسایہ ملک چین سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

چین نے خواتین کے حوالے سے عوامی سوچ تبدیل کرنے کے لیے بھی کافی کام کیا ہے۔ چینی خواتین اپنی مرضی کا لباس پہنتی ہیں۔ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرتی ہیں۔ اپنی مرضی اور اپنے اصولوں پر زندگی گزارتی ہیں۔

چینی خواتین تین مارچ 2013 کو بیجنگ میں تیانانمن سکوئر میں ایک تصویر کے لیے پوز کر رہی ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ گلوبل جینڈر گیپ 2022 میں پاکستان کو دوسرے بدترین ملک کا اعزاز دیا گیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم یہ انڈکس 2006 سے جاری کر رہا ہے۔

اس انڈکس میں شامل ممالک کی چار بنیادی شعبوں (معاشی مواقع، تعلیم کا حصول، صحت و زندگی اور سیاسی اختیارات) میں صنفی بنیاد پر فرق اور اس فرق کو ختم کرنے کی طرف ان کی پیشِ رفت کو نوٹ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کا ہمسایہ ملک چین اس فہرست میں پاکستان سے بہت اوپر لیکن کئی ممالک سے بہت نیچے 102 نمبر پر موجود ہے۔ چین نے جینڈر گیپ کو کم کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ تاہم، ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی اس رپورٹ کے مطابق چین میں خواتین کو مالیاتی خدمات، حقِ وراثت، زمینی و غیر زمینی اثاثوں تک رسائی، انصاف تک رسائی اور نقل و حرکت کے معاملے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

سب سے بڑھ کر چینی خواتین کو تولیدی خودمختاری حاصل ہے جس کے بارے میں پاکستان میں بات کرنا بھی آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنی خواتین کو تقریباً برابر کی مالیاتی خدمات فراہم کرتا ہے جبکہ حقِ وراثت اور زمینی و غیر زمینی اثاثوں تک رسائی میں غیر مساوی حقوق اور انصاف تک رسائی اور نقل و حرکت کے معاملے میں محدود حقوق دیتا ہے۔

چین نے پچھلی کچھ دہائیوں میں خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تیزی سے کام کیا ہے جس کی وجہ سے چین میں خواتین کا مقام پہلے سے کئی گنا بہتر اور مضبوط ہوا ہے۔

چین نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سو سے زائد قوانین بنائے ہیں۔ ان میں ان کی تعلیم، شادی، گھریلو تشدد، حقِ وراثت، جائیداد کی خرید و فروخت، اور کام کی جگہ پر حقوق جیسے بنیادی اور ضروری قوانین شامل ہیں۔

چین میں خواتین کو پولیس اور عدالت تک آزادانہ رسائی حاصل ہے۔ پولیس بھی ان کی شکایات پر فوری عمل کرتی ہے۔

اس کے علاوہ چین نے خواتین کے حوالے سے عوامی سوچ تبدیل کرنے کے لیے بھی کافی کام کیا ہے۔ چینی خواتین اپنی مرضی کا لباس پہنتی ہیں۔ اپنی مرضی سے نقل و حرکت کرتی ہیں۔ اپنی مرضی اور اپنے اصولوں پر زندگی گزارتی ہیں۔

میرے جیسی عام پاکستانی عورت انہیں دیکھ کر سوچتی ہے کہ کاش ایسی آزادی اور ایسے حقوق اسے بھی حاصل ہوتے۔

میرا ایسا سوچنا بالکل بجا ہے۔ میں پاکستان میں اپنی خواتین دوستوں کے ساتھ کسی بھی عوامی مقام پر بغیر کسی پریشانی کے وقت نہیں گزار سکتی۔ مجھے چند منٹوں میں ہی میری اور میری دوستوں کی حدود بتا دی جاتی ہیں۔

پچھلی بار پاکستان واپس آنے کے بعد ایک دوست سے ملنے کا منصوبہ بنایا۔ ہم ایک قریبی ریستوران میں موجود تھے۔ کھانے کا آرڈر دینے کے بعد باتیں کر رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ مجھ سے تھوڑی دور ایک میز پر بیٹھا آدمی بار بار مڑ کر ہمیں دیکھ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں دو سال بعد پاکستان واپس آئی تھی۔ دو سال میں انسان بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ میں بھی بھول گئی تھی۔ مجھے اس آدمی کا بار بار مڑنا اور ہمیں دیکھنا پریشان کر رہا تھا۔

وہ ایک بار پھر مڑا تو میں نے کہا، ’بھائی، یہیں آ جاؤ۔ کیوں اپنی گردن کو تکلیف دیتے ہو۔ پاس آ کر دیکھ لو۔‘

وہ پھر نہیں مڑا لیکن اردگرد موجود لوگوں نے مڑ کر مجھے ایسے دیکھا جیسے میں مریخ سے آئی ہوں۔

چین میں بھلا ایسا کہاں ہوتا ہے۔ وہاں خواتین مردوں کے دیکھنے کے خوف سے آزاد اپنی زندگی گزارتی ہیں۔

وہاں ایک دفعہ مجھے میری دوست یونیورسٹی کے قریب ایک ریستوران میں ہاٹ پاٹ کھانے لے گئی۔ واپسی پر ہم پیدل ہی یونیورسٹی کی طرف چل نکلے۔

میں نے رستے میں اسے بتایا کہ میں اپنے ملک میں اپنی دوست کے ساتھ اس بے فکری سے سڑک کنارے پیدل نہیں چل سکتی۔

میں وہاں بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں کہ کہیں کوئی بائیک سوار ہمیں تنگ کرنے کے لیے ہمارے قریب نہ آ رہا ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ چین میں بالکل بھی اس قسم کے واقعات نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں لیکن اتنے کم ہوتے ہیں کہ ہر ہونے والا واقعہ ایک خبر بن جاتا ہے۔

چینی خواتین اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر چپ نہیں رہتیں۔ فوراً شکایت کرتی ہیں۔ گذشتہ برس اگست میں ایک یونیورسٹی کی 17 سالہ طالبہ نے ملک کے ایک مشہور گلوکار کو جنسی تشدد کرنے پر گرفتار کروا دیا تھا۔

پاکستان میں بظاہر طاقت رکھنے والی خواتین بھی اتنی طاقت نہیں رکھتیں۔ وہ ایسا کر بھی دیں تو ساری بحث ان کے کردار تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔

چینی رہنما ماؤ زے تُنگ نے ایک صدی قبل کہا تھا کہ خواتین آدھا آسمان تھامتی ہیں۔ ان کے اس قول کے بعد چین میں خواتین کا مقام تیزی سے تبدیل ہوا ہے جس کی جھلک موجودہ چین میں دیکھی جا سکتی ہے۔

بے شک چین کو خواتین کے حقوق کے لیے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن صنفی مساوات کے حصول کے لیے اب تک کا اس کا سفر پاکستان جیسے ممالک کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

بس نیت ہونی چاہیے۔ مثالیں تو بہت مل جاتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ