بموں کا دھواں یا امن کی فاختہ

عالمی سیاست میں اس وقت سوالیہ نشانوں کی بھرمار ہے۔۔۔ نیٹو اور روس کے معاملات کے درمیان جھولتے بہت سے دیگر ایشیائی ممالک یقیناً توازن اور طاقت کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں لیکن یہ امن، فلسطین، کشمیر، کرد اور آرمینیا جیسے دیرینہ مسائل کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔

یوکرین کے فوجی 27 مارچ 2023 کو روسی پوزیشنز پر گولے داغ رہے ہیں (اے ایف پی)

بین الاقوامی سیاست رنگ بدل رہی ہے۔ زمانہ ایک سا کبھی رہا بھی نہیں۔ نو آبادیاتی دور کے اثرات، دنیا پر اب بھی کسی نہ کسی صورت باقی ہیں۔

یونی پولر دنیا کا نیا نظام تین دہائیوں تک تو کسی طرح چلا لیا لیکن اب دنیا کی سیاست ایک اور ہی کروٹ لے رہی ہے۔

روس یوکرین جنگ، ایک اور افغانستان ہو گی یا یہ کہانی مختلف ہو گی؟ یہ سوال اس وقت عالمی افق پر نمایاں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دونوں سپر پاورز کوئی بھی جنگ مکمل طور پر نہ جیت پائیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا جنگ کبھی جیتی بھی جاتی ہے؟

ایک ایسی دنیا جس میں یوکرین کی جنگ لڑی جا رہی ہے اسی دنیا میں بیجنگ، دہلی، ریاض، تہران، اسلام آباد ایک میز پر بیٹھنے کی تیاری میں ہیں۔

پاکستان روس سے خام تیل خریدنے جا رہا ہے اور خطے پر امریکی کنٹرول افغانستان سے اس کی فوج کے انخلا کے بعد جیسے ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے۔

کیا یہ حقیقت ہے؟ برطانیہ ہندوستان سے گیا تو داخلی مطالبے کے علاوہ دوسری جنگ عظیم کے اثرات بھی اس تبدیلی کے پیچھے کارفرما تھے۔

آج مغرب اور روس ایک بار پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں اور وہ ممالک جو ان بلاکس سے وابستہ تھے، اپنے اپنے معاملات کی سوچ رہے ہیں۔

فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت اور سویڈن کی شرکت کے لیے غوروفکر آنے والے وقت میں بہت سی تبدیلیاں لائے گا۔

ترکی اور سویڈن کے تعلقات کے تناؤ کے باوجود اگر سویڈن کو نیٹو میں شامل کیا جاتا ہے تو کیا ترکی کا جھکاؤ، کسی اور ممکنہ بلاک کی طرف ہو سکتا ہے؟

چین نامی سوئے ہوئے اژدھے کے جاگنے کے منتظر، کتنی ہی دہائیوں سے ایک مشرقی بلاک کی امید میں بیٹھے ہیں لیکن مشرق میں اختلافات اور ان ممالک میں سے اکثر کے نو آبادیاتی ماضی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو پایا۔

نو آبادیاتی ماضی ان ممالک میں سیاست کی جو شکل چھوڑ کر گیا ہے، اس سے نکلنے کے لیے بنیادی ڈھانچوں میں جتنی توڑ پھوڑ درکار ہے وہ اگر ارتقا کے ذریعے ہوتی ہے تو ایک لمبا عرصہ درکار ہے اور انقلاب ان خطوں میں اکثر چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے مسائل کو خود حل نہ کرنا اور کسی نہ کسی کی طرف دیکھتے رہنا ہی ایشیا میں کسی بھی بلاک کو پنپنے نہیں دے پایا۔

مگر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کسی مشرقی بلاک کا ہونا دنیا کے امن اور انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری بھی ہے یا نہیں؟

چین ،انڈیا اور پاکستان بھی اپنے عوام کی بھلائی اور خطے کے استحکام کے لیے ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن کیا کولونیل دور سے چلے آنے والے سرحدی تنازعے حل کیے جاسکتے ہیں؟

پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان تنازعات کی موجودگی میں کسی بھی طرح کا نیا بلاک سامنے آسکتا ہے یا نہیں؟

عالمی سیاست میں اس وقت سوالیہ نشانوں کی بھرمار ہے۔ تیل کی سیاست، ماحولیاتی آلودگی کی سیاست کے لیے جگہ چھوڑ رہی ہے اور آلودگی کے عالمی مسئلے کو سیاست کے ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

اس بدلتی دنیا میں پاکستان کے اندر بھی بنیادی سیاسی ڈھانچہ مکمل طور پر تبدیل ہونے والا ہے۔ سیاسی افق پر جو سرخیاں نظر آرہی ہیں وہ صاف صاف بتا رہی ہیں کہ حالات کسی اور طرف جا رہے ہیں۔

شنگھائی تعاون کی تنظیم اگر ایک کامیاب اور مضبوط علاقائی تنظیم بن جاتی ہے تو آنے والے کل کی عالمی دنیا کچھ اور ہو گی۔

فی الحال پاکستان اور انڈیا کے درمیان مسئلہ کشمیر پر تلخی کے باعث 21 مارچ کو ہونے والے سیمینار میں پاکستان شریک نہیں ہو پایا یا مبینہ طور پر دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور مودی حکومت، دونوں کی داخلی سیاست عوامی مزاج کی ہے، جس کے باعث بین الاقوامی اور خارجہ مسائل کے حل میں مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔

انڈیا کی داخلی سیاست جس میں اب ہندو مسلم فسادات روز کی بات بن گئے ہیں اور کشمیر کے مسئلے پر پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے قدم کے بعد جولائی کی کانفرنس میں کیا مکالمہ ہو گا، یہ بات ابھی ڈھلمل ہی ہے۔

نیٹو اور روس کے معاملات کے درمیان جھولتے بہت سے دیگر ایشیائی ممالک یقیناً توازن اور طاقت کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں لیکن یہ امن، فلسطین، کشمیر، کرد اور آرمینیا جیسے دیرینہ مسائل کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔

دیکھیے آنے والا وقت اپنے دامن میں دنیا کے لیے کیا لاتا ہے، بموں کا دھواں یا امن کی فاختہ۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ