صوبہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی خالی نشستوں پر الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق ایک مرتبہ پھر انتخابات 21 جولائی 2025 کو منعقد ہونے ہیں۔ لیکن انہیں منعقد کرانے کی اس سال کوشش کامیاب ہو پائے گی؟
کمیشن نے یہ انتخابات 2 اپریل 2024 کو منعقد کروانے کی کوشش کی تھی لیکن اراکین صوبائی اسمبلی کے حلف نہ اٹھانے کی وجہ سے مؤثر الیکٹورل کالج نہ بن سکا، جس کے باعث انتخابات مؤخر کیے گئے تھے۔
صوبے میں حکمراں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی ترجمان اور رکنِ اسمبلی عدیل اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ حکومتی معاملات ہیں، اور ابھی تک ہمیں اجلاس کے بارے میں کوئی اطلاع یا مراسلہ موصول نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا ’میں پارٹی کے معاملات دیکھتا ہوں، اور اجلاس کے حوالے سے ہمیں کوئی باضابطہ اطلاع نہیں ملی۔‘
پارلیمان کے ایوان بالا کی اس صوبے سے سات عام، دو خواتین کے لیے مخصوص اور دو ٹیکنوکریٹ/عُلما کی نشستیں کا فیصلہ اب 21 تاریخ کو ہونا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر گیارہ نشستوں کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ 31 جولائی کو صرف ایک نشست (ثانیہ نشتر کی خالی سیٹ) کے لیے الگ سے انتخاب ہونا ہے۔
اس انتخاب کے لیے صوبائی گورنر (پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی) آئین کی شق نمبر 109 کے تحت صوبائی اسمبلی کا اجلاس اپنی مرضی کے وقت اور دن پر طلب بھی اور ملتوی بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق اگر اسمبلی کے ایک چوتھائی اراکین سپیکر کو دستخط شدہ درخواست دیں تو اجلاس بلایا جا سکتا ہے۔
تاہم، اگر اجلاس کے دوران کورم پورا نہ ہو، یعنی اجلاس میں ایک چوتھائی اراکین سے کم موجود ہوں، تو اجلاس ملتوی کر دیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے چار جولائی کو سیکرٹری خیبر پختونخوا اسمبلی کے نام ایک خط لکھا گیا، جس میں درخواست کی گئی کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلا کر مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کی حلف برداری کے انتظامات کیے جائیں تاکہ سینیٹ کی خالی نشستوں پر 21 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنایا جاسکے۔
اسمبلی اجلاس بلوانے کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی سیکرٹری صوبائی اسمبلی کو درخواست جمع کرائی، جس میں اجلاس بلانے اور مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کی درخواست کی گئی ہے۔
سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے الیکشن کمیشن کو جوابی خط میں لکھا ہے کہ چونکہ اجلاس ملتوی ہے، اس لیے جب اجلاس دوبارہ ہو گا، تب ہی حلف برداری ممکن ہو گی۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپیکر کے پاس قانونی طور پر ازخود اجلاس بلانے کا اختیار نہیں اور اجلاس اسی صورت بلایا جا سکتا ہے جب ایک خاص تعداد میں اراکین تحریری درخواست دیں، جو کہ تاحال موصول نہیں ہوئی۔
ایسی ہی صورت حال گذشتہ سال بھی پیدا ہوئی تھی جب اجلاس بلانے کی درخواستیں کی گئیں لیکن اجلاس نہیں بلایا گیا، جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنا پڑے اور اس کا الزام حکمراں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر ڈالا گیا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے اس میں روڑے اٹکا رہی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی ترجمان عبدالجلیل جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے عوام کو سینیٹ میں نمائندگی سے محروم کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے سینیٹ کی 11 نشستیں خالی ہیں اور صوبہ ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم ہے۔ اب جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، تو بھی صوبائی حکومت اسمبلی اجلاس بلانے سے گریزاں ہے۔
جلیل جان کا کہنا تھا ’یہ صوبے کے عوام کا آئینی حق ہے کہ ان کی سینیٹ میں نمائندگی ہو، لیکن صوبائی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔‘
نمبر گیم کیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے مطابق 21 جولائی کے انتخابات کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ ان 11 نشستوں کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار پہلے ہی نامزد کر رکھے ہیں۔
اسمبلی میں اراکین کی تعداد کی بات کی جائے تو حالیہ دنوں میں مزید مخصوص نشستیں ملنے کے بعد حزبِ اختلاف کے اراکین کی تعداد 52 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس 92 اراکین ہیں۔
پشاور میں مقیم پارلیمانی رپورٹر لحاظ علی کے مطابق تحریک انصاف پانچ جنرل اور ایک خاتون نشست آسانی سے جیت سکتی ہے۔
اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کو ایک ایک نشست مل سکتی ہے۔ تاہم، لحاظ علی کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حزب اختلاف سے بات چیت کرے تو ایک اضافی نشست بھی حاصل کر سکتی ہے۔
لحاظ علی نے کہا ’جنرل نشست جیتنے کے لیے 18 سے 19 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں، اور اس حساب سے پی ٹی آئی پانچ نشستیں باآسانی جیت سکتی ہے۔ خواتین کی دونوں نشستیں بھی وہ جیت سکتی ہے اگر ووٹنگ دوسرے یا تیسرے مرحلے میں چلی جائے۔‘
حزبِ اختلاف کے 52 اراکین مل کر دو جنرل اور ایک خاتون نشست حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین حزب اختلاف کو ووٹ دیتے ہیں تو نتائج میں رد و بدل ہو سکتا ہے۔
لحاظ علی کے مطابق، ’اجلاس نہ بلانے کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کا غصہ ہے کہ انہیں مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، اسی لیے اب وہ سینیٹ انتخابات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا، ’مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملتیں تو سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کو نو سے 10 نشستیں ملنے کی توقع تھی لیکن ابھی ان کو پانچ سے چھ نشستیں ملیں گی۔‘
مخصوص نشستوں پر آنے والے نئے اراکین نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے انتظامی حلف برداری لینے کی درخواست کی ہے جو ہائی کورٹ کے کوئی جج بھی لے سکتا ہے۔
قانونی کوششیں؟
مخصوص نشستوں میں منتخب اراکین کی پشاور ہائی کورٹ میں جمع درخواست پر منگل کو سماعت پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزاروں کے وکیل عانر جاوید نے عدالت سے استدعا کی کہ ہائی کورٹ نے گذشتہ سال مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین سے حلف لینے کا حکم دیا تھا لیکن ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت بھی ہم نے توہین عدالت کی درخواست جمع کی تھی کہ اراکین سے حلف نہیں لیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک حلف نہیں لیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی پر عدالت نے بتایا کہ ابھی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کو حلف لینے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ابھی معاملہ وہاں (کہ چیف جسٹس اراکین سے حلف لیں) نہیں پہنچا ہے۔
اس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے بتایا کہ معاملہ وہاں تک پہنچ چکا ہے کیوں کہ سپیکر حلف نہیں لے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے گورنر اور وزیر اعلیٰ کو ممبران سے حلف لینے کے لیے خط بھی لکھا ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل نے بتایا، ’سپیکر، گورنر، اور وزیر اعلیٰ ناکام ہو جائیں تو پھر چیف جسٹس کے پاس اختیار ہے کہ کسی کو حلف لینے کے لیے نامزد کریں۔‘
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے وزیر اعلیٰ گورنر کو ریکوزیشن جمع کرائے گا جبکہ یہ معاملہ ابھی تک الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا، ’وزیر اعلیٰ نے حلف لینے سے انکار نہیں کیا ہے بلکہ ابھی تک ہمیں خط نہیں ملا ہے کہ اراکین سے حلف لیا جائے۔‘
سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو کل تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی اور کل دونوں فریقین کو سنا جائے گا۔
گذشتہ سال آئین کے آرٹیکل 255-اے میں ترمیم کر کے صوبوں میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور وفاق میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو نو منتخب اراکین سے حلف لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اسی صورت میں اگر مخصوص نشستوں پر آنے والے اراکین سے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یا کسی نامزد شخص کے ذریعے حلف لیا جاتا ہے تو حزب اختلاف کے اراکین کی ایک چوتھائی تعداد پوری ہو کر اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا سکتی ہے۔