کرناٹک کس کا ہو گا؟

کرناٹک کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کے ریاستی انتخابات، پارلیمانی انتخابات کا رحجان طے کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ریاست جنوب کا دروازہ سمجھی جاتی ہے۔

کرناٹک میں دس مئی 2023 کو خواتین ایک پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے پہنچ رہی ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ دو مہینوں سے انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک انڈیا کے ہر میڈیا چینل کا محور رہی ہے۔

10 مئی کو ریاست کے اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالے گئے اور 13 مئی کو ووٹوں کی گنتی کے بعد ان کے نتائج کا اعلان ہو گا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 کرناٹک میں جہاں کانگریس نے مصروف ترین انتخابی مہم چلائی ہے وہیں وزیراعظم نریندر مودی نے 24 گھنٹوں سے زائد عرصے تک روڈ شوز کرکے ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے کی حتی لامکاں کوشش کی، جو بقول بی جے پی مودی کی کرشمہ ساز شخصیت کا ان انتخابات میں انقلاب لاسکتی ہے۔

کرناٹک انڈیا کی دوسری ریاستوں سے مختلف ہے اور ووٹر بھی ایک الگ سوچ کے مالک ہیں۔

 یہ علاقہ رشوت کے بڑے بڑے سیکنڈلوں کا مرکز رہا ہے جس کا سہرا ان سرکردہ سیاست دانوں کے سر جاتا ہے جو حالیہ دنوں میں انتخابی مہم کا اہم جز رہے ہیں۔

دارالحکومت بنگلور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا گڑھ ہے جسے ایشیا کی سلیکون ویلی سے تشبیہ دی جاتی ہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مشہور ادارے یہاں پر موجود ہیں جہاں دنیا بھر سے طلبہ حصول تعلیم کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اکثر آبادی آسودہ حال ہے اور باقی ریاستوں کے شہریوں سے کافی بہتر زندگی گزار رہے ہیں جو مذہبی ہونے کے باوجود کٹر پرستی سے گریز کرتے ہیں۔

 

اگر بی جے پی انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ پکا ہے کہ شمالی انڈیا کی طرح جنوبی انڈیا بھی ہندوتوا کی زد میں آ گیا ہے جو انڈین سیکولرزم کا خاتمہ اور ہندو راشٹر کی شروعات ہو سکتی ہے۔

گو کہ ریاست میں کافی عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار رہی ہے لیکن کرناٹک میں کانگریس کی جڑیں ہمیشہ مضبوط رہی ہیں۔ تیسری بڑی پارٹی جنتا دل سیکیولر کو ‘کنگ میکر‘ کی حیثیت حاصل ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار نے اپنے دور اقتدار میں یہاں ہندوتوا کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ چاہیے مسلمان طلبہ کا حجاب پہن کر امتحان دینے کا قضیہ کھڑا کرنا ہو، سابق مسلم حکمران ٹیپو سلطان کو ہندو مخالف قرار دینا ہو یا مسلمانوں کو دی جانے والی ریزرویشن واپس لینے کا انتخابی منشور ہو۔

غرض سیکیولر سوچ رکھنے والی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کا کام جس سرعت سے شروع کیا گیا تھا اس کا عروج حال ہی میں اس وقت دیکھا گیا جب کانگریس کے انتخابی منشور میں بجرنگ دل سمیت تمام مذہبی منافرت پھیلانے والی جماعتوں پر پابندی عاید کرنے کے وعدے پر بوال کھڑا کیا گیا۔

خود سیکیولر انڈیا کے وزیراعظم نے ووٹروں کو ریلے کے دوران ہدایت کی کہ ووٹ ڈالنے کے وقت وہ ’بجرنگی بھگوان‘ کا نعرہ دینا نہ بھولیں۔

کانگریس نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد اپنی نئی حکمت عملی کے تحت عوام کے بنیادی مسائل پر انتخابی مہم کو محدود کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر بی جے پی کے ’بجرنگ دل پابندی‘ کو بھگوان بجرنگ پر پابندی کے مترادف دینے کی مہم نے کانگریس کو نہ صرف اپنی صفائی دینے پر مجبور کر دیا بلکہ سرکردہ رہنماوں کو ہنومان بھگوان کی پوجا کرنے کے مناظر کو سوشل میڈیا پر وائرل کروانے پڑے۔

کرناٹک کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کے ریاستی انتخابات، پارلیمانی انتخابات کا رحجان طے کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ریاست جنوب کا دروازہ سمجھی جاتی ہے۔

80 کی دہائی کے اوائل میں جب اندرا گاندھی نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی تو باغی رہنما چندر شیکھر نے جنوبی انڈیا سے آزاد ملک کی پہلی ’بھارت یاترا‘ کرناٹک سے شروع کی تھی۔ وہ اس زمانے میں سیکیولر انڈیا کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چندر شیکھر 1990 میں ملک کے وزیراعظم بنے اور جنتا پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد پہلی بار کانگریس کی اجارہ دارہ ختم کر دی تھی۔

یہ وہی جنتا پارٹی ہے جو جن سنگھ کے ساتھ ضم ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی بنی تھی۔

اندرا گاندھی کے پوتے راہل گاندھی نے اسی طرز پر بھارت جوڑو یاترا کرناٹک سے شروع کی۔ عوام نے ان کی سیکیولر انڈیا کی سوچ کو کافی سراہا جس کے باعث بی جے پی کو اپنی نئی سرکار بنانے کی امید کم دکھائی دینے لگی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وہ اپنی ممکنہ انتخابی شکست کو آنے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے اچھا شگن نہیں مانتی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ انتخابی کمیشن کی سخت ہدایات کے باوجود کرناٹک میں ’ووٹ کے بدلے نوٹ‘ کا چلن کھلے عام جاری رہا ہے خاص طور سے ان علاقوں میں جو کانگریس کے محفوظ حلقے خیال کیے جاتے رہے ہیں۔

تاہم 30 فیصد مسلم آبادی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے کانگریس اور جنتا دل سیکیولر کو اپنا ووٹ دینے کا تہیہ کیا تھا اور بیشتر علاقوں میں مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے تھے جن کے بارے میں بی جے پی نے مہم چلائی کہ وہ کالعدم تنظیم پیپلز فرنٹ سے وابستہ ہیں اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

انتخابی نتائج جو بھی ہوں اور کوئی بھی سیاسی جماعت سرکار بنائے لیکن ایک بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ انڈیا کی انتخابی مہم میں بنیادی مسائل کے بجائے اب مذہبی منافرت توجہ بنتی جا رہی ہے جو اس ملک کی سیکیولر بنیاد کو نہ صرف ہلارہی ہیں بلکہ اقلیتوں کو نئی حکمت عملی ترتیب دینے پر مجبور کر رہی ہیں۔

دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اگر بی جے پی انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ پکا ہے کہ شمالی انڈیا کی طرح جنوبی انڈیا بھی ہندوتوا کی زد میں آ گیا ہے جو انڈین سیکولرازم کا خاتمہ اور ہندو راشٹر کی شروعات ہو سکتی ہے۔

دوسرا یہ کہ اگر کانگریس کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس بات کی نشان دہی ہو گی کہ بھارت جوڑو یاترا کے نتیجے میں کانگریس کی مردہ جان میں نئی روح پھونک دی گئی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر سیکیولر بنیاد کی حکمت عملی کے تحت بی جے پی کی ہندوتوا لہر کو ختم کرنے کی ہمت کی جا سکتی ہے۔

رائے عامہ کے تمام جائزے کانگریس کو بڑی پارٹی کے طور پر انتخابات جیتنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ