کرناٹک کے انتخابات: بی جے پی کا کڑا امتحان

آج انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس میں حکمران بی جے پی کو کڑے مقابلے کا سامنا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی شکست کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کرناٹک کے انتخابات کے لیے پولیس اہلکار نو مئی 2023 کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں حاصل کر رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں بدھ دس مئی 2023 کو ہونے والے ریاستی انتخابات میں تین بڑی پارٹیاں یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس اور جنتا دل سیکیولر (جے ڈی ایس) سبھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ رائے عامہ کے جائزے کانگریس کی واضح جیت کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔

 ووٹوں کی گنتی 13 مئی کو ہو گی جب کہ اسی رات کو نتائج متوقع ہیں۔  

کرناٹک میں ووٹروں کی کل تعداد سوا پانچ کروڑ ہے، جن میں سے لگ بھگ نو لاکھ نوجوان ہیں جو پہلی بار ووٹ دیں گے۔

ریاست میں نشستوں کی کل تعداد 224 ہے، جن کے لیے دو ہزار 613 امیدوار لڑ رہے ہیں۔ بی جے پی نے تمام 224 نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے امیدواروں کھڑے کیے ہیں جب کہ کانگریس نے 223 اور جے ڈی ایس نے 207 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے 209 اور بہوجن سماج پارٹی کے ایک سو 33 امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

ان ریاستی انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابی مہم میں خود وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ دوسری جانب کانگریس کی جانب سے راہل گاندھی نے ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے مہم چلا رکھی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی: ملا جلا ریکارڈ

بی جے پی اپنی حکومت برقرار رکھنے کی امید کر رہی ہے، جو اس نے 2018 میں معلق اسمبلی کے بعد تشکیل دی تھی۔ بی جے پی کرناٹک میں پچھلے چھ سالوں سے برسراقتدار ہے، اور اس کا ملا جلا ریکارڈ رہا ہے۔ ایک طرف ریاست نے اس عرصے کے دوران نمایاں اقتصادی ترقی دیکھی ہے۔ بی جے پی حکومت نے انفراسٹرکچر اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

دوسری طرف، بی جے پی کو کرونا کی وبا سے نمٹنے اور بدعنوانی کے سکینڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

کانگریس کو واپسی کی امید

کانگریس کرناٹک میں واپسی کی امید کر رہی ہے۔ پارٹی چھ سال سے اقتدار سے باہر ہے، اور وہ بی جے پی کی سمجھی جانے والی ناکامیوں کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ کانگریس بھی حکومت مخالف عناصر سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہی ہے، کیونکہ بہت سے ووٹر بی جے پی کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔

جنتا دل سیکیولر

جنتا دل سیکیولر کی دوسری ریاستوں کی نسبت کرناٹک میں اچھی پوزیشن ہے۔ فی الحال اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کر رکھا ہے، لیکن وہ آج کے انتخابات میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی امید کر رہی ہے۔ جے ڈی ایس لنگایت برادری کی حمایت سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہی ہے، جن کا کرناٹک میں بڑا ووٹ بینک ہے۔

کرناٹک میں آئندہ ریاستی انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ تینوں بڑی پارٹیاں اقتدار کے لیے کوشاں ہیں، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کامیاب ہو گا۔ انتخابات کے نتائج کا ریاست کے مستقبل پر خاصا اثر پڑے گا۔

یہ انتخابات اس لحاظ سے بےحد اہم ہیں کہ کیوں کہ کرناٹک کا شمار انڈیا کی بڑی اور طاقتور ریاستوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہ واحد جنوبی ریاست ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ان انتخابات سے پتہ چلے گا کہ اگلے سال ہونے والے قومی انتخابات میں بی جے پی کہاں کھڑی ہے۔

کرناٹک کی مسکان خان

کرناٹک میں بی جے پی کی پالیسیوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی ایک مثال گذشتہ سال ایک وائرل ہونے والی ویڈیو کی شکل میں سامنے آئی۔

اس ویڈیو میں کرناٹک سے تعلق رکھنے والی 19 سالہ طالبہ مسکان خان حجاب پہن کر ایک کالج میں داخل ہوتی ہیں اور انہیں دیکھ کر ایک ہجوم ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے لگتا ہے اور مسکان ’اللہ اکبر‘ کہہ کر ان کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں۔

اس واقعے کے بعد پاکستان میں’مسکان‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جب کہ ویڈیو وائرل ہونے پر پاکستانی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سمیت کئی شخصیات نے خواتین کو لباس کی بنیاد پر تعلیم کے حق سے محروم کرنے کی کوشش اور ہراسانی کے خلاف آواز اٹھائی۔

کرناٹک میں پانچ فروری 2022 کو تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے خلاف مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔

ان مظاہروں کی مخالفت میں ہندو طلبہ نے بھی احتجاج شروع کر دیا جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہو گئے تھے۔

ریاستی ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ چیلنج ہوا مگر عدالت نے یہ کہتے ہوئے ’ہماری رائے ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے‘ حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

مسلمان تنظیموں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مسلمان لڑکیوں کے حجاب پر پابندی لگانا بی جے پی کے ہندوتوا کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

کانگریس کے لیے زندگی موت کا معاملہ

انڈین میڈیا نے لکھا ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کو ’کرو یا مرو‘ کی صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ 2014 اور 2019 کے قومی انتخابات میں پچھلی شکستوں کے بعد کانگریس مسلسل بیک فٹ پر ہے۔

ملک بھر میں حال ہی میں منعقدہ اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں بھی اسے خفت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تریپورا، ناگالینڈ اور میگھالیہ سمیت شمال مشرقی ریاستوں میں کانگریس کا صفایا ہو گیا اور وہاں بی جے پی نے میدان مار لیا۔ ہماچل پردیش واحد ریاست تھی جہاں کانگریس کو فتح ملی۔

2018 کے انتخابات میں کانگریس نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم جیوترادتیہ سندھیا کی بغاوت کی وجہ سے مدھیہ پردیش کی حکومت ایک سال کے اندر ہی گر گئی۔

مزید یہ کہ کانگریس نے اپنا آخری گڑھ یعنی پنجاب اروند کیجریوال کی زیرقیادت عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ اس لیے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں جیت کانگریس کے حوصلے بلند کرنے کے لیے بےحد ضروری ہے۔

کانگریس کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ کرناٹک کا میدان مار کر یہ ثابت کر سکے کہ وہ انڈین سیاست میں اب بھی مقام رکھتی ہے اور اگلے برس ہونے والے قومی انتخابات میں بی جے پی کر ٹکر دینے کی پوزیشن میں ہے۔

سروے کے نتائج

کچھ قرائن سے نظر آتا ہے کہ کانگریس ممکنہ طور پر کرناٹک میں فتح حاصل کر سکتی ہے۔

کرناٹک کے ایک میڈیا ہاؤس ’ایڈینا‘ کے منعقد کردہ سروے کے مطابق کانگریس واضح برتری سے انتخابات جیت جائے گی۔ اس سروے میں 224 نشستوں کے ایوان میں کانگریس کو 134 تا 140 نشستیں جیتتا ہوا دکھایا گیا ہے، جب کہ بی جے پی کے حصے میں صرف 57 تا 65 نشستیں آئی ہیں۔

2018 میں ہونے والے انتخابات میں کانگریس نے 80 جب کہ بی جے پی نے 104 نشستیں حاصل کی تھیں۔  

بی جے پی کی حکومت کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ کرناٹک کے انتخابات میں کسی برسراقتدار جماعت نے گذشتہ چار دہائیوں کے بعد دوبارہ اکثریت حاصل نہیں کی۔

بی جے پی شکست کی متحمل نہیں ہو سکتی

انڈین تجزیہ کار پروفیسر یوگیندر یادو نے لکھا ہے کہ ’جنوب میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے بی جے پی کے لیے کرناٹک پر کنٹرول برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ بی جے پی 2024 تک کسی بھی بڑی ریاست کے انتخابات ہارنے کی متحمل نہیں ہو سکتی خاص طور پر ایسی ریاست میں جہاں اس کی حکومت ہو۔‘ 

وہ لکھتے ہیں کہ ’اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی بی جے پی کے لیے کوئی آسان نہیں ہیں کیونکہ اس کے درجنوں اہم قائدین نے انحراف کرتے ہوئے اقتدار کی سب سے بڑی دعویدار کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ بی جے پی کو اپنے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی وزیر اعظم نریندر مودی سات مرتبہ ریاست کے دورہ کر چکے ہیں۔

کرناٹک میں اگرچہ بی جے پی نے کئی مرتبہ اقتدار حاصل کیا لیکن کبھی بھی اسے واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ اب اس کے لیے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے اس نے ’آپریشن کرناٹک‘ بھی شروع کیا ہے۔

’اگر دیکھا جائے تو کرناٹک جنوبی ہند میں داخلہ کا بی جے پی کے لیے دروازہ ہے۔ اس پر شمالی ہند سے درآمد کردہ پارٹی ہونے کا جو لیبل چسپاں ہے، اس لیبل کو ہٹانے کا ایک موقع ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا