انڈیا: نصابی کتابوں سے مغلوں، گجرات فسادات کے باب ہٹانے پر تنقید

مورخین اور ماہرین تعلیم نے انڈیا میں مغل حکمرانوں، گجرات فسادات اور گاندھی کے قتل کا باعث بننے والی ہندو انتہا پسندی کو سکولوں کی نصابی کتابوں سے نکالنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

مورخین اور ماہرین تعلیم نے انڈیا میں مغل حکمرانوں، گجرات فسادات اور گاندھی کے قتل کا باعث بننے والی ہندو انتہا پسندی کو سکولوں کی نصابی کتابوں سے نکالنے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق سکولوں کے نصاب اور نصابی کتب کو مرتب کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی)  نے اگلی کئی کلاسز کے لیے نصاب میں نظر ثانی کی ہے۔

لیکن یہ اقدام تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں سے کئی اہم ابواب کو ہٹانے پر تنقید کی زد میں ہے۔

انڈیا میں ہندو قوم پرستی کے عروج پر ہے جہاں کچھ ہندو انتہا پسند گروہ طویل عرصے سے ہندوستان کی قرون وسطی کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور ملک کے اسلامی ماضی کو ’دفنانے‘ کی مہم چلا رہے ہیں۔

نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے دور میں مقبول مغل اور اسلامی ناموں سے منسوب شاہراہوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں جب کہ کچھ ہندو گروپ تاج محل اور قطب مینار جیسی مغل آثار قدیمہ کو بھی گرانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

نئی نصابی کتب سے مغل بادشاہوں، اسلام اور ان کی ثقافتوں پر مبنی دو صفحات کی ٹائم لائن اور دہلی سلطنت حوالے سے کئی صفحات کو ہٹا دیا گیا ہے۔

مغلوں اور دیگر مسلم خاندانوں نے تقریباً آٹھ صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کی، جن کا یہاں کی ثقافت اور تاریخ میں بہت زیادہ حصہ ہے۔

برطانوی تاریخ دان ڈاکٹر کیتھرین شوفیلڈ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے لکھا: ’یہ مضحکہ خیز ہے۔ مغلوں نے 200 سال سے زیادہ ہندوستان پر حکومت کی (تکنیکی طور پر 300 سال سے زیادہ) اور اپنے پیچھے ایک پائیدار میراث چھوڑی ہے۔

’ان سے پیار کریں، ان سے نفرت کریں یا کوئی پروا نہ کریں لیکن مغلوں کو سکول کی تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹانا ان کو غائب نہیں کر سکتا۔‘

ایک اور برطانوی مورخ سائمن سکاما نے ٹویٹ کیا: ’یہ تاریخ پر ایک اور مضحکہ خیز وار ہے۔ مغل ایک شاندار تہذیب تھی جس نے اعلیٰ فن، موسیقی، فن تعمیر تخلیق کیا۔‘

حکومتی ادارے این سی ای آر ٹی نے ’جمہوریت اور تنوع‘، ’مقبول جدوجہد اور تحریک‘، ’جمہوریت کو چیلنجز‘ اور ’آزادی کے بعد انڈین سیاست‘ جیسے باب کو بھی ہٹا دیے ہیں۔

ہندو قوم پرست عسکریت پسند اور گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کے بارے میں لکھی گئی تحریروں میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔

گوڈسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رکن تھے اور اس انتہا پسند ہندو گروپ کا وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے گہرا تعلق ہے۔

وہ باب جس میں گوڈسے کو ایک انتہا پسند ہندو اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر بیان کیا گیا تھا، کو بھی خارج کر دیا گیا ہے۔

گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر لگنے والی پابندی کے پیراگراف کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

انڈین یونیورسٹی کے پروفیسر اشوک سوائن نے لکھا: ’انڈیا کی حکومت نے ایک ہندو قوم پرست کے ہاتھوں مہاتما گاندھی کے قتل کا واقعہ بھی تاریخ کی کتاب سے مٹا دیا ہے۔

یہی نہیں بلکہ حالیہ تاریخ کے بدترین مسلم کش گجرات فسادات کو بھی سینسر کر دیا گیا ہے۔

مغربی ریاست گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات میں تقریباً دو ہزار اموات ہوئی تھیں، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے جب کہ نصاب سے یہ بات بھی حذف کر دی گئی کہ فسادات کے دوران نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔

قبائلی کسانوں اور حکومت مخالف ماؤ نوازوں کے اتحاد نکسل ازم کے باب کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے نصاب سے سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی حکومت کی جانب سے 1975 سے 1977 کے درمیان 21 ماہ کے لیے نافذ نام نہاد ایمرجنسی کے دوران اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانی کے پیراگراف کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔

دوسری جانب نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے ان ترمیم شدہ کتابوں کو ایک ’ریشنلائزیشن‘ مشق کے طور پر جائز قرار دیا ہے جس کا مقصد طلبہ پر نصاب کے بوجھ کو کم کرنا اور کرونا وبا کے دھچکے سے نکلنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔

انڈین ویب سائٹ دی نیشنل نیوز کے مطابق این سی ای آر ٹی کے سربراہ دنیش پرساد سکلانی نے کہا: ’یہ ماہرین کی جانب سے تجویز کیا گیا عمل تھا کیوں کہ کووڈ وبا کی وجہ سے نصابی مواد کو کم کرنا پڑا۔ طلبہ کی مدد کرنا اور بوجھ نہ ڈالنا ضروری ہے اور اس لیے متنازع مواد کو نکال دیا گیا ہے۔‘

لیکن متعدد مورخین، ماہرین تعلیم اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے ملک کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہے۔

 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے کئی ریاستوں میں اسلامی نام والے مقامات اور شہروں کے نام باقاعدگی سے تبدیل کیے ہیں۔

مودی حکومت نے ملک بھر میں سڑکوں کے ساتھ ساتھ ایک درجن شہروں کے نام بھی تبدیل کر دیے ہیں۔

معروف بھارتی مورخ اور مصنف سید عرفان حبیب نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ تاریخ کو مستقبل کی نسل کے لیے مٹا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل