برطانیہ کا مالیاتی بحران کتنا سنگین؟

بینک آف انگلینڈ نے پالیسی ریٹ میں اضافے سے عوام کو ’صدمے اور خوف‘ کا بڑا پیغام دیا ہے۔

16 دسمبر، 2021 کی اس تصویر میں ایک شخص لندن میں بینک آف انگلینڈ کی عمارت کے سامنے سے گزر رہا ہے(اے ایف پی)

زیادہ تر بینک آف انگلینڈ سرپرائزز دینا پسند نہیں کرتا۔ کوئی بھی سرپرائز عام طور پر بحران کی نشاندہی کرتا ہے اور موجودہ بحران کا مطلب ہے کہ بینک اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر رہا۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی ہنگامی صورت حال نہیں تھی تو اس طرح  صارفین، کاروباری اداروں اور فنانشل مارکیٹ کو ’صدمے اور خوف‘ کا پیغام پہنچانے کا کوئی سبب نہیں تھا کیوںکہ محتاط اندازے کے مطابق طویل عرصے سے سہ ماہی کے لیے بینک کی شرح سود میں مزید 4.5 فیصد اضافہ متوقع تھا۔
 
اگر بینک افراط زر کو روکنے اور پالیسی ریٹ کو معمول پر لانے کے لیے اپنے ترجیحی ’بے بی سٹیپس‘ کو بتدریج اٹھانے کی پالیسی کو روک دیتا تو یہ یا تو اس کے عزم کی کمی کا اشارہ کرتا یا پھر معاشی سرگرمی یا مالی استحکام کے لیے ایک غیر متوقع خطرے کے حوالے سے اس کے گھبراہٹ سے بھرپور ردعمل کو ظاہر کرتا۔
 
دوسری جانب اگر بینک اپنے سخت ترین ناقدین کی باتوں پر کان دھرتا اور نصف فیصد پوائنٹ کے اضافے کے ساتھ صرف یہ ظاہر کرتا کہ اس کا مقصد کاروبار کو بچانا تھا تو اس سے یہ تاثر پھیل جاتا کہ مہنگائی واقعی کسی بھی حل کے لیے مشکل ثابت ہو رہی ہے۔
 
لہٰذا یہ اقدام، جو متوقع اور اعتدال پسند تھے اور واضح، نرم بھی لیکن اپنی حدود سے بڑھ گئے تھے، مرکزی بینک کی حکمت عملی کا ایک نمونہ تھا۔
 
جیسا کہ بینک کے گورنر اینڈریو بیلی نے اسے قابل تعریف سادگی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ افراط زر بہت زیادہ ہے، 10 فیصد سے بھی زیادہ۔ یہ بینک کے دو فیصد کے سرکاری ہدف کا معاملہ اور زیادہ تر بین الاقوامی موازنوں کے برخلاف مقرر کیا گیا ہے۔
 
مہنگائی کا یہ گراف اتنی تیزی سے نیچے نہیں آ رہا ہے، جتنا کہ بینک نے امید کی ہو گی اور اس میں تبدیلی کا امکان نہیں۔

بنیادی افراط زر کے ساتھ غیر مستحکم اشیا جیسے ایندھن اور خوراک کی پہنچ مشکل تر ہوتی جا رہی ہے جن کی قیمتیں تازہ ترین ریڈنگز کے وقت چھ فیصد کی تکلیف دہ سطح پر ہیں۔

اسی وجہ سے یہ افرادی قوت کی موجودہ کمی کی عکاسی کرتا ہے کیوں کہ بریگزٹ کے نتیجے، طویل کووِڈ اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی طرف رجحان سے اجرت کے اخراجات زیادہ ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں گھریلو افراط زر اس طرح ایک مسئلہ بن گیا ہے جو 1990 کی دہائی کے اوائل سے نہیں دیکھا گیا۔
 
معیشت کی (نسبتاً) مضبوط کارکردگی ایسی رہی ہے کہ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے بھی اپنی گروتھ فارکاسٹس کو اپ گریڈ کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برطانیہ اس سال کساد بازاری سے بچ جائے گا۔

بے روزگاری کم ہے اور اجرت زیادہ ہے۔ معیشت ابھی تک یورپی یونین چھوڑنے، یوکرین جنگ اور سپلائی چین میں کرونا وبا کے بعد کی رکاوٹوں کی وجہ سے رسد کے جھٹکوں سے دوچار ہے۔

اس طرح یہ اپنی صلاحیت کی آخری حد کو چھو رہی ہے لیکن ایک چھوٹی صلاحیت موجود ہے یعنی 2019 کے مقابلے میں ترقی کی معمول کی شرح۔ اس سے کچھ امید ہے۔
 
نظریاتی طور پر مختصر مدت میں ایسی صورت حال کا بہترین ردعمل معیشت کی سپلائی سائڈ پر عمل کرنا اور بریگزٹ کو ریورس کرنا، مزید تارکین وطن کو ویزے جاری کرنا، کووِڈ کے لیے طویل مدتی علاج اور ریٹائر ہونے والوں کو کام پر واپس آنے پر مجبور کرنا ہے۔
 
یہ دیکھتے ہوئے کہ اس طرح کے پالیسی لیورز بینک آف انگلینڈ یا وزارت خزانہ کو پیش نہیں کیے گئے ہیں، ٹیکس میں اضافہ اور شرح سود میں اضافہ ہی واحد ہتھیار ہیں اور انہیں مطلوبہ نتائج کے لیے کچھ طاقت کے ساتھ استعمال کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
 
لہٰذا بار کے عملے سے لے کر سیمی کنڈکٹرز اور قدرتی گیس تک ہر چیز کی محدود سپلائی کے پیش نظر اس طرح کی زبردست مانگ موجودہ مہنگائی کو اتنی تیزی سے نیچے لانے کے لیے بینک اور حکومت کی خواہش کے برعکس برا شگون ہے۔

اس کی زیادہ قیمت گھروں کے مالکان اور کاروباری اداروں کو ادا کرنا پڑے گی جنہیں اگلے چند مہینوں میں قرض لینے کے زیادہ اخراجات کا سامنا ہے۔

بینک نے مسلسل خطرے پر نظر رکھی ہے اور یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ اگر گذشتہ سال سے بینک کی شرح میں 12 اضافے کے جواب میں بنیادی افراط زر کم نہیں ہوتا ہے تو وہ شرح پر مزید کارروائی کرے گا۔
 
سال کے آخر تک پانچ فیصد کے بینک ریٹ کو رد نہیں کیا جا سکتا اور ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی اجرت کے لیے سودے بازی میں سرایت کر رہی ہے اور دکانوں میں رکھی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ صارفین تک بہت آسانی سے منتقل ہو رہی ہے۔
 
اس سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بینک بہت زیادہ بے صبری کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اسے حد سے زیادہ بڑھانے کا خطرہ پال رہا ہے؟
 
یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کو اگلے سال کے دوران کسی بھی صورت میں اعتدال پسند بنانا چاہیے۔
 
ایک شماریاتی نمونے کے طور پر اور شرح سود میں اضافے کے فوری اثر کی توقع نہیں کی جا سکتی اس کی موجودگی کو معروف طویل اور متغیر وقفے کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے جب وہ معیشت میں اپنا کام کر رہی ہو۔
 
مہنگائی کو چند ہفتوں میں دو فیصد پر واپس نہیں لایا جا سکتا چاہے بینک کو بہت بڑی معاشی مندی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
 
سود کی شرح کو بہت جلد بڑھانا، جب اس بات کا امکان موجود ہو کہ افراط زر ’قدرتی طور پر‘ کم ہو جائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب شرح میں اضافہ اپنے عروج پر پہنچ جائے تو افراط زر پہلے ہی مضبوطی سے اپنے ٹارگٹ ریٹ کی جانب گامزن ہو جائے (اور ہو سکتا ہے کہ یہ اس تک پہنچ چکی ہو)۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ایسا ہی ہے جیسے شاور میں کوئی شخص پانی کے درجہ حرارت کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کر رہا ہو، صرف اس وجہ سے کہ گرم پانی پائپوں کے ذریعے شاور کے ہیڈ تک نہیں پہنچا ہے، جس کے ممکنہ جھلسنے والے اثرات سے تھوڑی زیادہ احتیاط اور استقامت سے بچا جا سکتا ہے۔

حقیقی دنیا میں بہت زیادہ تیزی سے ریمنگ ریٹس میں اضافے کا مطلب ہے کہ قرض لینے والوں اور سرمایہ کاری کے لیے مالی اعانت کی خواہاں فرموں پر ضرورت سے بھی زیادہ سخت دباؤ اور ابھی بہت زیادہ مصیبت آنی ہے۔

موجودہ مالیاتی اور مالی سکڑاؤ کے باوجود پہلے سے نافذ ٹیکسوں میں اضافے اور مہنگائی جاری رکھنے سے معیار زندگی کم سے کم مختصر سے درمیانی مدت کے لیے جمود کا شکار نظر آتا ہے۔
 
بینک کے چیف اکانومسٹ ہوو پِل کا یہی مطلب تھا جب انہوں نے برطانوی شہریوں کو یہ تسلیم کرنے کا مشورہ دیا کہ وہ پہلے سے زیادہ غریب ہو چکے ہیں۔
 
وزیر اعظم رشی سنک کے دو اہم وعدوں کو پورا کرتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ معیشت ترقی کی طرف لوٹ آئے حالانکہ یہ کم سے کم ہو گی اور مہنگائی 2023 کے دوران نصف رہ سکتی ہے۔
 
پھر بھی ایک ہی وقت میں جائیداد کی قیمتیں گر سکتی ہیں اور دیوالیہ پن اور بے روزگاری ضرورت سے زیادہ بڑھ سکتی ہے چاہے کساد بازاری کو ٹال بھی دیا جائے۔ سیاسی طور پر یہ دوبارہ انتخابات کے خواہاں حکومت کے لیے خطرناک خبر ہے۔
 
چاہے بینک نے مالیاتی پالیسی کو بہت لمبے عرصے تک بہت ڈھیلا رکھا، 2009 میں عالمی مالیاتی بحران سے لے کر بریگزٹ اور کرونا وبا تک، یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر مالیاتی تجزیہ کار اور معاشی مورخین فرصت میں بحث کر سکتے ہیں۔
 
حقیقت یہ ہے کہ بینک ان میں سے کسی بھی بحران کو آتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا اور اسے ان بحرانوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے پڑے جیسا کہ ولادی میر پوتن اپنے جنگ کے احکامات جاری کرنے سے پہلے کبھی بھی ایم پی سی کے ساتھ بات چیت نہیں کرتے تھے۔
 
شاید اس سال پانچ سے چھ فیصد مہنگائی کے رشی سنک کے سیاسی ہدف پر لاشعوری طور پر اور اپنی ساکھ اور آپریشنل آزادی سے خوفزدہ ہو کر بینک اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ وہ افراط زر پر نرمی برت رہا ہے۔
 
برطانیہ کے مہنگائی کے ناخوشگوار تاریخی تجربے اور اس کے دوبارہ مقامی مسٔلہ بننے کے ثبوت کے پیش نظر بینک اپنی ترسیلات زر کو جاری رکھنے میں غلطی کر رہا ہے لیکن اس کا ایک مطلب اور ایک خوف بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے ہم سب جھلسے بغیر نہیں رہ سکتے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ