ایشز 2019: بہتر فارم کی تلاش میں انگلینڈ لارڈز روانہ

جو روٹ کی دو سالہ کپتانی میں 15 فتوحات کے ساتھ 12 شکستوں سمیت دو ڈرا میچز سے محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم کسی دوراہے پر کھڑی ہے۔

انگلینڈ کے کپتان جو روٹ (بائیں) اور کھلاڑی بین سٹوکس (دائیں) 13 اگست کو لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں نیٹ پریکٹس کے بعد ہونے والے فوٹو سیشن کے بعد پویلین کی طرف جارہے ہیں (تصویر: روئٹرز)

پرانی ضرب المثل ہے کہ وہ ٹیمیں جو لارڈز میں جیت کی تلاش میں ہوتی ہیں انہیں نیچے کی بجائے اوپر دیکھنا چاہیے۔ یہ انگلینڈ کے لیے درست ثابت ہو سکتا ہے اگر وہ سٹیو سمتھ اور آسٹریلین بولروں کو اس ہفتے بھی قابو کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر وہ شکست کھاتے ہیں تو سیریز میں دو صفر سے پیچھے رہ جائیں گے اور کوئی خدائی مدد ہی انہیں باقی ماندہ ایشز میں کوئی امید دلا سکتی ہے۔

ایشز کے دوران ایک کے بعد ایک ٹیسٹ ناقابلِ شکست مومینٹم بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 03-2002 سے جب انگلینڈ نے آسٹریلیا سے میلبرن میں ہونے والے باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں شکست کھانے کے بعد سڈنی میں فتح حاصل کی، تب سے کوئی بھی ٹیم پہلا میچ ہارنے کے بعد دوسرا میچ نہیں جیت سکی۔

لارڈز اور ہیڈنگلے کے درمیان اگلے تین دن کے دوران بے رحمی سے پلٹنا ہی اگلے ہفتے انگلینڈ کو موقع دے گا کہ وہ بطور فیورٹ جیت سکیں، ساتھ ہی یہ ان کے لیے ایک اَلٹی میٹم بھی ہے کہ اگر وہ ہارے تو دو ہفتے میں ایشز ان کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔

اپنے ٹیسٹ ڈیبیو سے پہلے ہی بدھ کو جوفرا آرچر کہہ چکے ہیں کہ ’کسی معجزے کی امید مت رکھیں۔‘ لیکن مشکل گھڑی میں فاتحین کی تلاش کے لیے انگلینڈ کی ہمیشہ سے موجود یہ ضد ابھی باقی ہے۔ 14 سال میں کیون پیٹرسن کے بعد آج تک کسی ڈیبیو کرنے والے کھلاڑی سے اتنی توقعات نہیں رکھی گئیں، لیکن آرچر سے یہ امید لگانا کہ وہ ناقص کارکردگی کا شکار ٹیم کی ذمہ داری بانٹیں گے کافی غیر حقیقی اور نامناسب ہے۔

اگر انگلینڈ کی ٹیم اس سیریز کا توازن بدلنا چاہتی ہے تو یہ انفرادی کارکردگی سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ ایسا مشکل لائن لینتھ، فیلڈ میں منظم رہنے، بیٹنگ میں بھرپور توجہ اور اپنی وکٹ زیادہ سے زیادہ رنز کے بدلے دینے سے ممکن ہوگا۔ میں اس کے لیے مڈل آرڈر سے توقع کروں گا کہ وہ اپنی شہرت کے مطابق کارکردگی دکھائیں اور جو روٹ اپنی دو سالہ کپتانی کی سالگرہ پر یہ ثابت کریں کہ وہ ان 29 ٹیسٹ میچوں سے کیا سیکھ سکے ہیں۔ ایک شناخت، ایک حکمت عملی، ایک ایسی کوشش جس میں تمام کھلاڑی اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے حصے سے کچھ زیادہ کر سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روٹ کی دو سالہ کپتانی کے باوجود ابھی تک یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ انگلینڈ کے لیے ان کی کپتانی کس بات کی علامت ہے؟ وہ کیسی کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں؟ وہ ٹیسٹ میچ کیسے جیتنا چاہتے ہیں؟ اور اس فارمیٹ میں وہ ٹیسٹ میچ کیسے ڈرا کرنا چاہتے ہیں؟ 15 فتوحات کے ساتھ 12 شکستوں سمیت دو ڈرا میچز سے محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم کسی دوراہے پر کھڑی ہے اور ایک ایسا آزادانہ کھیل کھیل رہی ہے جس میں شائقین کو متاثر کرنے کی صلاحیت تو ہے لیکن یہ تسلسل سے محروم ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ ثابت قدمی اور حالات کے مطابق منصوبہ بندی پر منحصر ہے اور اگر ایجبسٹن میں چوتھی اننگز کے دوران آپ مشکلات کا شکار ہیں تو ایسا موخر الذکر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ موسم کی پیش گوئی کے مطابق بدھ کو کھیلے جانے والے میچ کے دوران بارش اور پِچ پر گھاس کی بدولت میچ کچھ جلد بازی سے کھیلا جائے گا۔ لارڈز میں کھیلے گئے آخری پانچ ٹیسٹ میچوں میں 85،35،107، 130 اور 123 رنز  اور 250 سے اوپر صرف تین سکور اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہاں وکٹوں کی بہار ہو گی۔

اس میچ میں انگلینڈ کی امید اور صف اول کے تیز رفتار بولر جیمز انڈریسن موجود نہیں ہوں گے۔ آرچر اپنی سیم اور سوئنگ اور سسیکس میں تین شاندار سیزن کھیلنے کے بعد یہاں بہت فائدہ مند ہوں گے۔ لیکن ایک ڈیبیو کرنے والے کھلاڑی جن کا تمام فرسٹ کلاس تجربہ ڈویژن ٹو کا ہو اور جنہوں نے گیارہ ماہ میں سرخ گیند کی کرکٹ نہ کھیلی ہو، سے تمام امیدیں باندھ لینا کافی زیادہ ہے اور حیران مت ہوں اگر یہ لارڈز کے لارڈ کرس ووکس ہوں، جو اس میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔

ووکس اب بھی ایک نوجوان کی طرح سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں، لیکن اب وہ 30 سال کے ہیں اور تقریباً اتنے ہی ٹیسٹ کھیل چکے ہیں۔ اگر انہیں سینیئر بننے کا کوئی موقع مل سکتا ہے تو وہ یہی ہے۔ لارڈز میں ان کا ریکارڈ 69 رنز اور دس وکٹیں یقیناً سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ لیکن ایجبسٹن میں ان کا آسٹریلوی لوئر آرڈر کو آؤٹ کرنا بشمول دوسری اننگز میں سٹیو سمتھ کی وکٹ اور ساتھ میں بلے بازی میں ان کی بڑھتی دلچسپی سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ بڑا کرنے کی کوشش میں ہیں۔

انگلینڈ میں انفرادی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ ٹیسٹ میچ ایک بہت بڑا موقع ہیں۔ اگر آپ برتری چاہتے ہیں تو اس کے لیے تگ و دو کرنی ہوگی، محنت کرنی ہوگی، زور آزمانا ہوگا، اپنی کمزوریوں کو چھپانا اور ان پر قابو پانا ہوگا۔ انگلینڈ اگلے کچھ عرصے کے دوران کوئی نیا سٹیو سمتھ دریافت کرنے نہیں جا رہا اور نہ ہی انہیں کسی نئے نیتھن لیان کا سامنا ہوگا، جنہیں ڈینس للی کا 355 وکٹوں کا ریکارڈ توڑنے کے لیے صرف چار وکٹیں درکار ہیں۔ لیکن انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے پانچ بدترین کھلاڑی آسٹریلیا کے پانچ بدترین کھلاڑیوں سے اچھا کھیلیں اور ایک مشکل سیریز میں شاید یہی کافی ہوگا۔

اسی وجہ سے انگلینڈ نے معین علی کی جگہ جیک لیچ کو شامل کیا ہے۔ لیچ شاید معین علی کے مقابلے میں زیادہ شاندار کھلاڑی نہیں ہیں لیکن اس وقت بلے اور گیند کے ساتھ کارکردگی کے لحاظ سے وہ زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ڈینلی نہ کہ روٹ انگلینڈ کے مڈل آرڈر کے لیے اہم کردار ادا کر یں گے، اگر انہیں شامل کیا گیا۔ اگر وہ صرف دو سیشن سخت دباؤ برداشت کر جاتے ہیں تو کسی کے پاس اپنا بہتر کھیل نہ کھیلنے کا کوئی بہانہ نہیں ہو گا۔ اسی وجہ سے روری برن ایجبسٹن میں سینچری کے بعد اس سیریز کے غیر متوقع ستارے کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ 2005 میں ایشلے جائلز ہوں یا 06-2007 میں سٹورٹ کلارک، 11-2010 میں کرس ٹریملٹ ہوں یا 2013 میں این بیل، ایشز ہی وہ جگہ ہے جہاں عام کھلاڑی ہیروز میں تبدیل ہوتے ہیں۔

لیکن ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنی سوچ میں چھوٹی سی تبدیلی لانی ہوگی۔ انگلینڈ کو اس کے لیے اپنے افق کو وسیع نہیں بلکہ مرکوز کرنا ہوگا۔ انہیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ وہ سفید گیند کی کرکٹ کے چیمپیئن ہیں لیکن اس فارمیٹ میں وہ اتنے اچھے نہیں ہیں جتنا ان کو ہونا چاہیے۔ انہیں اس کھیل کے بنیادی اصولوں کی جانب واپس جانا ہوگا۔ جب آپ اچھا کھیل رہے ہوں تو مزید بہتر کھیلنا ہوگا۔ جب دباؤ میں ہوں تو اسے برداشت کرنا ہوگا۔ یہ وائرل ویڈیوز، آگ والی سمائلیز اور دلچسپ مارکیٹنگ مہم جیسا نہیں ہے، لیکن اگر آپ کے پاس ایک ایسی نسل کی ٹیم ہے تب ہی آپ اس ٹیسٹ میں کامیابی کا بھروسہ کر سکتے ہیں۔

 آسٹریلیا بھی اسی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ ان کے پاس فاسٹ بولرز کی لائن ہے۔ جیمز پٹنسن باہر ہیں تو اس میچ کے لیے مچل سٹارک دستیاب ہوں گے۔ لیکن مڈل آرڈر بیٹنگ ابھی تک خطرناک حد تک سمتھ پر ہی انحصار کر رہی ہے اور انگلینڈ کے آسان حالات میں آزمائی نہیں گئی۔ کیمرون بینکرافٹ یہ پوری سیریز کھیلتے نظر نہیں آرہے۔ آسٹریلیا انہی وجوہات کو چھپا کر رکھنے میں کامیابی کے باعث اس سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ اگر انگلینڈ بھی جیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ