انگریزوں کا اپنی عورتوں سے کیا برتاؤ تھا؟

ہندوستان آنے والے انگریزوں کی نجی زندگی آج کے دور سے بہت مختلف تھی اور وہ اپنی عورتوں کو پس پردہ رکھتے تھے۔

انگریز خواتین کو خاص خاص تہواروں پر شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ نذر نیاز کے لیے مزاروں پر بھی جاتی تھیں، لیکن عوامی مقامات پر نچلے درجے کی عورتوں کے علاوہ اشرافیہ کی عورتیں نظر نہیں آتی تھیں (تصویر: وکی میڈیا کامنز)

ہندوستان میں امرا کے گھر دو حصوں میں تقسیم ہوتے تھے، مردانہ اور زنانہ۔ یونانیوں کی طرح ہندوستان کی خواتین کو اجازت نہیں تھی کہ وہ مردانے میں آئیں۔ مردانہ مردوں کی سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہاں دوستوں کی محفلیں ہوتی تھیں۔ شطرنج کھیلی جاتی تھی۔ شعر و شاعری ہوتی تھی اور کھانے کی دعوتیں۔

اس کے برعکس زنانے میں عورتوں کی اپنی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ یہ عورتیں اپنی زیب و زینت کے علاوہ کوئی پیداواری کام کاج نہیں کرتی تھیں۔ گھریلو ملازموں کی بڑی تعداد ہوتی تھی جو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ ان کو بازار میں جا کر خریداری کی بھی اجازت نہیں تھی بلکہ تاجر ہر قسم کا مال لے کر ان کی حویلیوں میں آ جاتے تھے۔ خاص طور سے کپڑے کے تاجر اور سُنار جن سے یہ زیورات تیار کرواتی تھیں۔

انگریز خواتین کو خاص خاص تہواروں پر شرکت کی اجازت ہوتی تھی۔ نذر نیاز کے لیے مزاروں پر بھی جاتی تھیں، لیکن عوامی مقامات پر نچلے درجے کی عورتوں کے علاوہ اشرافیہ کی عورتیں نظر نہیں آتی تھیں۔

اس لیے جب ابتدا میں انگریز ہندوستان آئے تو حرم اور زنانہ کے بارے میں اُن کے رومان پرور خیالات تھے۔ ہندوستان کی عورت اُن کے لیے سربستہ راز تھی۔ اس ابتدائی دور میں کچھ انگریز افسروں نے امرا کے خاندانوں میں شادیاں کیں اور تہذیبی طور پر ہندوستانی بن گئے۔ یہ فارسی بولتے تھے، ہندوستانی لباس پہنتے تھے اور اپنی بیگمات کو پردے میں رکھتے تھے۔

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار ہندوستان میں مستحکم ہو گیا تو اس کے بعد سے کمپنی کے عہدیدار انگلستان سے اپنی بیگمات کے ساتھ آنے لگے۔ انگریزی خواتین کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب تک جو ہندوستانیوں اور انگریزوں کے سماجی تعلقات تھے اُن میں کمی آگئی۔ انگریز اپنی محفلوں اور دعوتوں میں ہندوستانیوں کو نہیں بلاتے تھے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستانی انگریز عورتوں کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھیں کیونکہ ہندوستان میں پبلک میں یا دعوتوں میں طوائفیں رقص کرتی تھیں۔

ان ثقافتی رویوں کی وجہ سے انگریزوں اور ہندوستانیوں میں آہستہ آہستہ دوری ہونے لگی۔ وہ انگریز عورتیں جو اپنے شوہروں کے ساتھ مفصلات میں جا کر رہتی تھیں جہاں وہ سخت تنہائی کا شکار ہو جاتی تھیں کیونکہ اُن کے قریب میں کوئی دوسرا انگریزی خاندان نہیں ہوتا تھا۔ اُن کا واسطہ ملازمین یا آیاﺅں سے رہتا تھا جو اُن کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرصت کے واقعات میں ان میں سے کچھ نے ڈائریاں لکھنی شروع کر دیں جو اب سماجی تاریخ کا اہم ماخذ ہیں۔ ان میں سے کچھ نے مصوری شروع کر دی اور اپنے اردگرد کے ماحول کی منظر نگاری کی۔ ان میں سے کچھ ایسی انگریزی خواتین بھی تھیں جنہوں نے ہندوستانیوں کے سماج اور خاندان کو سمجھنے کے لیے امرا اور حکمرانوں کے زنان خانے میں جا کر عورتوں سے بات چیت کی اور اُن کی روزمرہ کی زندگی رسم و رواج اور اُن کے مذہبی عقائد کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔

ان میں سے ایک خاتون فینی پارکس ہندوستان میں 24 سال رہیں۔ ان کی کتاب ”Wanderings of a pilgrim in search of the picaresque“  ہے جس میں انہوں نے ہندوستان اور خاص طور سے امرا کے زنان خانے میں خواتین سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے۔ ہندوستان میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ انہیں بنگال کے ایک ہندو تاجر کی دعوت میں شرکت کا موقع ملا۔ اس میں انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی تھے۔ دعوت کا بڑا اہتمام کیا گیا تھا۔ طوائفیں برابر رقص کر رہی تھیں۔ لیکن تاجر کے زنان خانے سے کوئی عورت دعوت میں موجود نہیں تھی۔ لہٰذا فینی پارکس اُٹھ کر زنان خانے میں گئی جہاں گھر کی ساری عورتیں جمع تھیں۔ اُنہوں نے فینی پارکس کا استقبال کیا۔ اُس نے دیکھا کہ یہ عورتیں کھڑکی پر چیک کی دراڑوں سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ ان میں سے کچھ کو وہ پہچانتی بھی تھیں لیکن روایت کے مطابق وہ مردوں کی دعوت سے دور زنان خانے میں رہیں۔

اس کے بعد فینی پارکس نے کئی امرا کے گھر جا کر اُن کی عورتوں سے بات چیت کی۔ وہ اودھ کے نواب کے زنان خانے میں بھی گئی۔ وہاں نواب کی کئی بیگمات تھیں۔ سب سے بڑی بیوی علیحدہ سے ایک پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس کے اردگرد دوسری بیویاں تھیں۔ اُن میں سے ایک انگریز خاتون بھی تھیں جو ایک انگریز تاجر کی لڑکی تھی۔ جس سے نواب نے شادی کر لی تھی۔ سب سے چھوٹی بیوی ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی تھی۔ جو بے انتہا خوبصورت تھی۔ یہ عورتیں پان چبا رہی تھیں اور خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ ان کا زیادہ وقت لباس اور زیورات پہننے اور میک اپ میں گزرتا تھا۔ کچھ معمولی سے مشاغل ہیں جو انہیں مصروف رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کسی بھی قسم کے ایسے کاموں سے ناواقف ہیں جو معاشرے کے لیے مفید ہوں۔

فینی پارکس مغل بادشاہ کے حرم میں بھی گئی۔ یہاں اُنہوں نے شاہی محل کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے۔ شاہی محل کی خواتین میں بھی دولت اور ثروت کے آثار نظر نہیں آئے۔ لیکن یہ شاہی قوانین اور خاص طور سے بادشاہ کی بڑی بیگم نے روایتی رسم و رواج کے مطابق جاتے وقت فینی پارکس کو ایک معمولی ہار عطا کیا جس میں کبھی ہیرے جواہرات ہوتے ہوں گے۔اب وہ نقلی نگوں کا تھا۔ فینی پارکس نے بھی اُسے آداب کے بعد قبول کیا اور ملکہ کا شکریہ ادا کیا۔

فینی پارکس کے تاثرات امرا اور حکمرانوں کے محلات اور اُن کے زنان خانوں تک محدود ہیں۔ اس نے عام خواتین یا نچلے درجے کی عورتوں کے بارے میں بہت کم لکھا ہے۔ لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امرا کی عورت چار دیواری میں قید تھی جب کہ نچلے طبقے کی عورتیں محنت اور مزدوری کر کے پیداواری عمل میں حصہ لیتی تھیں۔

فینی پارکس اُس وقت ہندوستان آئی تھی جبکہ مغل خاندان اپنے عروج سے زوال کی جانب جا چکا تھا۔ مغل امرا اپنی جاگیریں کھو کر شکستہ اور خستہ حویلیوں میں رہ رہے تھے۔ اُن کی عورتیں بھی گزشتہ شان و شوکت کھو کر غربت کی زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن اس حالت میں بھی اُنہوں نے قدیم ادب و آداب کو باقی رکھا ہوا تھا۔

مغل خاندان تو غربت کی حالت میں تھا لیکن فینی پارکس کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاجر طبقے کے پاس بڑی دولت آگئی تھی اور ان تاجروں کا رابطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدے داروں سے تھا جن کی وہ دعوتیں کر کے اُن سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔ دوسرے ہمیں اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مغل خاندان کے مقابلے میں اب اودھ کا شاہی خاندان زیادہ دولت مند تھا کیونکہ اُس کا اندازہ فینی پارکس کی اُن تفصیلات سے ہوتا ہے جو اُس نے ان کے لباس اور زیورات کے بارے میں لکھا ہے۔

فینی پارکس اُن آنے والی انگریز خواتین میں تھی جن کا ہندوستان کے بارے میں رومانوی تصور تھا۔ اس لیے اُس نے کسی بھی جگہ ہندوستانی عورتوں یا ہندوستانی کلچر کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ اس کی کتاب سے ہمیں نہ صرف عورتوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کن سیاسی اور سماجی نشیب و فراز سے گزر رہا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ