ماحول دوست بیٹری فری آلات بنانے والے پاکستانی پی ایچ ڈی سکالر

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ابوبکر امریکہ کے جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بحیثیت پی ایچ ڈی سکالر ایک ایسے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد بیٹری فری سسٹم یا ڈیوائسز بنانا ہے، جو ماحول دوست بھی ہوں۔

ہم میں سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی موبائل فون یا دیگر آلات میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی چارجنگ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا ان بیٹریوں کے علاوہ بھی کوئی آپشن ہے؟

ابھی تو شاید اس کا جواب نہ میں ہو لیکن مستقبل میں اس مسئلے سے چھٹکارا ملنا شاید ممکن ہو، کیونکہ دنیا میں اس حوالے سے تحقیق اور تجربات جاری ہیں اور ایک پاکستانی نوجوان بھی ایسی ہی ایک ریسرچ کا حصہ ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ابوبکر امریکہ کے جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں بحیثیت پی ایچ ڈی سکالر ایک ایسے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد بیٹری فری سسٹم یا ڈیوائسز بنانا ہے، جو ماحول دوست بھی ہوں۔

ابوبکر نے بتایا کہ بیٹری فری سسٹمز کے پیچھے بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج کل موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول یا دیگر ڈیوائسز میں سینسرز یا بیٹریاں ہوتی ہیں، جو لیتھیم سے بنتی ہیں اور ری سائیکل بھی نہیں ہوسکتیں۔

بقول ابو بکر: ’نوکیا کمپنی کے 3310 موبائل فون یا دوسرے سمپل فون کے مقابلے میں آج کل کے موبائل فونز میں بہت جدت آگئی ہے، لیپ ٹاپ میں جدت آگئی ہے لیکن بیٹری ٹیکنالوجی بہت آہستہ آہستہ ترقی کر رہی ہے۔ اسی طرح بیٹریوں میں جو میٹریل استعمال ہوتے ہیں وہ بھی ری سائیکل نہیں ہوسکتے۔ اس پر بھی ریسرچ ہو رہی ہے لیکن اس کی رفتار کم ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ ایسی ڈیوائسز بنانے پر ریسرچ کر رہے ہیں، جن کے اندر بیٹری نہ ہو اور وہ اپنی توانائی کی ضرورت سولر انرجی، حرکی توانائی (Kinetic Energy) وغیرہ سے حاصل کریں، یعنی ’ہم بیٹری کو ڈیوائسز میں سے نکالنا چاہ رہے ہیں۔‘

ابوبکر نے گذشتہ برس کووڈ 19 کی وبا کے دوران محققین کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر ’فیس بٹ‘ (FaceBit) نامی ایک ڈیوائس بنائی تھی، جسے این 95 ماسک میں لگایا جا سکتا ہے اور جو پہننے والے کو اس کی سانس کی رفتار، دل کی دھڑکن اور جسم کے درجہ حرارت وغیرہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے، جنہیں بلیو ٹوتھ کے ذریعے موبائل فون پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’یہ ایک ایسی ڈیوائس ہے جو آپ کی بات چیت سے، کھانسنے سے، چلنے پھرنے سے توانائی حاصل کرتی ہے۔‘

اگرچہ اس ڈیجیٹل ماسک کو کمرشل استعمال کے لیے نہیں بنایا گیا تھا لیکن ابوبکر کے مطابق انہوں نے کچھ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو یہ فراہم کیا اور انہیں اس کا کافی اچھا رسپانس ملا۔

بحیثیت ایک پاکستانی ریسرچ سکالر ابوبکر اپنی تحقیق اور اس کے نتائج کو اپنے ملک میں استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن ان کے خیال میں پاکستان کو جدت کے اس مقام تک پہنچنے میں کم از کم 25 سال لگیں گے۔

انہوں نے بتایا: ’پاکستان میں ہارڈویئر انڈسٹری بہت کم ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس پر کام کر رہے ہیں۔۔۔ زیادہ تر لوگ مارکیٹ سے کچھ پارٹس خرید کر انہیں آپس میں جوڑ کر کوئی چیز بنا دیتے ہیں لیکن ہارڈویئر مینوفیکچرنگ پر اتنی زیادہ توجہ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پاکستان، امریکہ یا دیگر دنیا کے ٹرینڈز کو فالو کر رہا ہوتا ہے لیکن ہم ہارڈویئر ڈیزائن میں 15 سے 25 سال پیچھے چل رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان میں بیٹری فری پروڈکٹس کا مستقبل تو نظر آرہا ہے لیکن یہ ٹرینڈ آہستہ آہستہ ہی پروان چڑھے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تعلیمی ادارے اس فیلڈ پر توجہ دے کر طلبہ کو تربیت دے سکتے ہیں اور مختلف پروجیکٹس بنا سکتے ہیں، مثال کے طور پر ایسے ریموٹ کنٹرول، جن میں سیل ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔

دنیا بھر میں زیادہ تر بیٹریوں میں لیتھیم کا استعمال ہوتا ہے، جو ایک سستی دھات ہے، لیکن اس کے وسائل آہستہ آہستہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ابوبکر کے مطابق لیتھیم سے بنائی گئی بیٹری کچھ عرصے میں ایکسپائر ہو جاتی ہے اور اسے ری سائیکل کرنے کا عمل اتنا موثر نہیں ہے، جو ماحول کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔

’مجھے نسل پرستی کا ڈر تھا‘

اپنے ریسرچ پروجیکٹس کے ساتھ ساتھ ابوبکر نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہونے والے تجربات بھی شیئر کیے، جہاں ان کے مطابق انہیں کبھی نسل پرستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ کبھی اس بات کا احساس ہوا کہ وہ ایک ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔

’مجھے نسل پرستی کا ڈر تھا کہ شاید مجھے خوش آمدید نہیں کہا جائے گا لیکن ان پانچ سالوں میں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا کہ مجھے میرے رنگ یا نسل کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بنایا گیا ہو۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی ریسرچ لیب نے انہیں ہر طرح کی سہولیات اور فنڈز فراہم کیے ہیں جبکہ ان کے اساتذہ بھی بہت تعاون کرتے ہیں۔

بقول ابوبکر: ’میرے پی ایچ ڈی ایڈوائزر کی ترجیح ہوتی ہے کہ میں جمعے کے دن ان کے ساتھ میٹنگ کروں لیکن ان کو پتہ ہے کہ جمعے کو مجھے نماز پڑھنے جانا ہوتا ہے اور میں اس دن دستیاب نہیں ہوتا تو وہ مجھے کسی اور دن ایڈجسٹ کرتے ہیں۔‘

جدوجہد ہر جگہ ہے!

انہوں نے دیگر پاکستانی نوجوانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بیرون ملک تعلیم کے لیے ضرور جائیں لیکن کوئی مقصد لے کر، صرف پیسے کمانے کی غرض سے نہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کے بارے میں کیا اہم بات معلوم ہونی چاہیے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک میں تعلیم سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہاں بھی آپ کو زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

’یہاں سے بیٹھ کر لگ رہا ہوتا ہے کہ وہاں کی زندگی بہت اچھی ہے، ہم وہاں جائیں گے تو ہماری زندگی کو چار چاند لگ جائیں گے تو ایسا نہیں ہے۔ یہاں کی اور وہاں کی الگ الگ جدوجہد ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میرا ماننا ہے کہ جو بھی کریں اس کا آپ کے ملک کو فائدہ ہونا چاہیے۔ آپ (وہاں سے) جو بھی سیکھ کر آئیں اسے اپنے ملک کو واپس دینا چاہیے۔۔۔ جو بھی کریں لیکن ملک کے ساتھ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری وابستہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل