فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ خالد عبدالغفور اور 40 سالہ ذیشان احسان تقریبا چھ ماہ پیدل سفر کر کے عمرے کے ویزے پر سعودی عرب میں موجود ہیں جہاں اب وہ حج کرنے کے خواہش مند ہیں۔
خالد عبدالغفور نے مکہ مکرمہ سے ویڈیو کال پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ وہ عمرے کے ویزے پر سعودی عرب میں داخل ہوئے تھے اس لیے یہاں پہنچ کر انہوں نے حج کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تھا۔
ان کے مطابق ’پاکستانی ایمبیسی سے ہمیں کہا گیا ہے کہ آپ عمرے کے ویزے پر حج نہیں کر سکتے ہیں، حج کرنے کے لیےآپ کو واپس پاکستان جانا ہو گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں پاکستان ایمبسی کی طرف سے وزارت حج کو لکھے گئے خط کے جواب میں حکام کی طرف سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ ’آپ پہلے پاکستان واپس آئیں اور پھر آپ حج کرنے دوبارہ سعودی عرب جا سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سفر پر پہلے ہی فی کس 12 لاکھ روپے سے زیادہ رقم خرچ کر چکے ہیں اور پاکستان واپس جا کر دوبارہ اتنی زیادہ رقم جمع کروانا ان کی استطاعت سے باہر ہے۔
خالد عبدالغفور ایم ایس سی میتھیمٹکس اور ذیشان احسان ایم ایس سی فزکس کے علاوہ ایم فل اردو کی تعلیمی قابلیت کے حامل ہیں اور فیصل آباد میں دارالہدیٰ کے نام سے طالبات کے لیے قائم ایک تعلیمی ادارے کے منتظمین میں شامل ہیں۔
خالد عبدالغفور کے مطابق اس سے پہلے وہ متعدد مرتبہ عمرہ کرنے سعودی عرب جا چکے ہیں لیکن ان کے دل میں طویل عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ پیدل سفر کر کے اللہ تعالی کے حضور حج بیعت اللہ کے لیے حاضر ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ عمرہ کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز سفر سے انہیں وہ اطمینان قلب یا تسلی نہیں ہوتی تھی جو پیدل سفر کرنے سے ہوئی ہے۔
’ہوائی جہاز کے سفر پر تو یہ ہوتا ہے کہ ابھی جہاز فضا میں ہی ہوتا ہے تو احرام باندھنے کا اعلان ہو جاتا ہے اور پھر وہاں پہنچتے ہی عمرہ شروع کر دیا جاتا ہے جس سے وہ سکون قلب حاصل نہیں ہوتا تھا جس کی مجھے خواہش تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’اس سفر کے دوران ویسے تو بہت سارے ناقابل یقین واقعات ہوئے لیکن جب سعودی عرب کے شہر الخرج میں میرا ایک 40 فٹ والے ٹرالر سے ایکسیڈنٹ ہوا تو میں نے اللہ کی نصرت کو بہت قریب سے دیکھا۔‘
’میرا نہیں خیال تھا کہ میں بچ پاوں گا لیکن اللہ تعالی نے مجھے دوبارہ صحت اور تندرستی عطا کی اور بہت جلد صحت وتندرستی عطا فرمائی جس کی وجہ سے میں احرام زیب تن کر کے بیعت اللہ میں حاضر ہوا اور عمرہ ادا کیا۔‘
خالد عبدالغفور کے مطابق انہوں نے تین دسمبر 2022 کو فیصل آباد میں شالیمار پارک کے علاقے میں اپنے گھر سے سفر کا آغاز کیا اور تقریبا چھ ماہ سفر کر کے سعودی عرب پہنچے تھے۔
’فیصل آباد سے ہم پہلے سلطان باہو پہنچے تھے۔ وہاں سے کوئٹہ آئے ، کوئٹہ سے تفتان جو کہ پاکستان اور ایران کا بارڈر ہے۔ وہاں سے ہم شیراز پہنچے اور پھر بندرعباس آئے۔‘
’وہاں سے ہم فیری میں بیٹھے اور شارجہ کی خالد امین پورٹ پہنچے۔ وہاں سے ہم دبئی اور ابو ظبی سے ہوتے ہوئے سعودی عرب کے شہر بطحہ بارڈر پہنچے۔ سعودی عرب میں داخل ہونے کے بعد ہم الخرج پہنچے ، وہاں سے ریاض آئے اور پھر وہاں سے مکہ مکرمہ۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بتانا کافی مشکل ہے کہ مسجد نبوی یا بیعت اللہ کو پہلی بار دیکھ کر ان کے کیا جذبات تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیدل سفر کے دوران سعودی عرب میں انہیں حکومت کی طرف سے خصوصی طور پر سکیورٹی کے لیے سعودی پولیس کی ایک ٹیم دی گئی تھی جس کے لیے وہ سعودی حکومت کے شکر گزار ہیں۔