جب شرمیلا ٹیگور نے ساس کے خوف سے آدھی رات کو پوسٹر اتروائے

شرمیلا ٹیگور کو ڈر تھا کہ ان کی فلم کے بولڈ پوسٹر دیکھ کر ہونے والی ساس شادی سے انکار نہ کر دیں۔

’این ایوننگ اِن پیرس‘ اپنے دور کی نہایت مقبول فلم تھی (شکتی فلمز)

شرمیلا ٹیگور کے اوسان خطا ہو گئے، ہاتھ پیر پھولنے لگے اور یہ سوچنے لگیں کہ اب کیا ہو گا؟

شرمیلا ٹیگور کو بتایا گیا تھا کہ نواب بیگم آف بھوپال ساجدہ سلطان علی خان پٹودی بمبئی آنے والی ہیں۔ نواب بیگم شرمیلا ٹیگور کی بہت جلد ساس بننے والی تھیں اور ان کی بمبئی آمد کی خبر نے جیسے شرمیلا کی روح کو کپکپا دیا تھا، جبھی انہوں نے بہت سوچ بچار کر اپنے ڈرائیور کو فوری طور پر طلب کرلیا۔

شرمیلا ٹیگور کو ان دنوں بے صبری سے انتظار تھا کہ ان کی نئی فلم ’این ایوننگ اِن پیرس‘ کا، جس کی نمائش سے پہلے ہی اس مووی کا چرچا تھا۔ ہدایت کار شکتی سمانتھ کی اس تخلیق میں شرمیلا ٹیگور کا ہیجان خیز اور ہوشربا انداز تھا۔

بالخصوص ایسے میں ہر ایک کی دلچسپی اور بڑھ گئی جب انہوں نے فلم فیئر میگزین کے سرورق پر ان کی ایسی تصویر شائع کی، جس نے فلم نگری میں آگ بھڑکا دی۔ اس کے بعد فلم کی عکس بندی سے جو تصاویر مختلف اخبارات اور فلمی جرائد کی زینت بنیں اس میں بخوبی دیکھا جا سکتا تھا کہ شرمیلا ٹیگور سوئمنگ کاسٹیوم میں ہیں۔

یہ 1966 میں کسی بھی ہیروئن کا بہت بڑا بولڈ قدم تھا۔ ایسی جرات کرنے کا کسی اور دوسری ہیروئن میں دم نہیں تھا، لیکن شرمیلا ٹیگور نے تمام تر حدوں کو پار کرکے وہ سب کچھ کردیا جس کا تصور ہی محال تھا۔

ان دنوں شرمیلا ٹیگور کی شامیں نواب منصور علی خان پٹودی کے ساتھ بیت رہی تھیں اور دونوں بہت جلد زندگی کا سفر اکٹھا شروع کرنے والے تھے، جس میں خاندان کی باہمی رضا مندی بھی شامل تھی۔ شرمیلا ٹیگور کو ایک خوف یہ بھی تھا کہ ’این ایوننگ ان پیرس‘ کی بے باکی سے بھرپور ان کی تصاویر کو دیکھ کر نواب منصور علی خان پٹودی خفا نہ ہو جائیں۔

یہ بھی اپنی جگہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ شرمیلا ٹیگور اور خود شکتی سمانتھ کو بھی احساس تھا کہ فلم میں لباس سے متعلق انہوں نے جانے اور انجانے میں ضرورت سے زیادہ آزاد خیالی کامظاہرہ کیا ہے۔ ڈریہ بھی تھا کہ اسی کو وجہ بنا کر سینسر بورڈ رکاوٹ نہ ڈالے۔

شرمیلا ٹیگور بھی تذبذب سے دوچار تھیں جبھی انہوں نے نواب منصور علی خان کو تار کے ذریعے بتایا کہ انہوں نے فلم میں کچھ عامیانہ لباس زیب تن کیے ہیں، کہیں انہیں اعتراض تو نہیں ہو گا؟

شرمیلا ٹیگور کا خیال تھا کہ ٹائیگرپٹودی کا غصے سے بھرا ٹیلی فون آئے گا اور ممکن ہے کہ ان کی شادی بھی نہ ہو پائے لیکن شرمیلا ٹیگور کے تمام تر خدشات اور تحفظات اس وقت پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گئے جب نواب منصور علی نے جوابی ٹیلی گرام میں کہا کہ شرمیلا ٹیگور ان مختصر سے ملبوسات میں قیامت ڈھا رہی ہیں۔

شرمیلا ٹیگور نے سکھ اور چین کا ایک لمبا سانس لیا۔ انہیں خوشی اس بات کی ہوئی کہ نواب منصور علی خان نے تنگ نظری کے بجائے کشادہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔

شرمیلا ٹیگور کو کیا معلوم تھا کہ ایک نئی پریشانی ان کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہے۔ آنے والے دنوں میں انہیں اطلاع دی گئی کہ ٹائیگرپٹودی کی والدہ اور نواب بیگم آف بھوپال ساجدہ سلطان علی خان پٹودی بمبئی کا رخ کرنے والی ہیں۔

شرمیلا ٹیگور ایک مرتبہ پھر ہلکان ہونے لگیں۔ گو کہ ٹائیگرنے تو کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن وہ اتنا جانتی تھیں کہ بیگم صاحبہ کو فلموں سے کوئی شغف نہیں تھا اور ان کا فلم دیکھنے کا امکان نہیں تھا، لیکن اگر ان کی نگاہیں بمبئی کے مختلف مقامات پر لگے ان پوسٹروں پر پڑ گئیں، جن میں ان کی ہونے والی بہو اور مستقبل کی نواب بیگم ہیجان خیز انداز میں مختصر لباس میں ہے تو کہیں ظالم سماج کی دیوار اس قدر بلند نہ ہو جائیں کہ وہ ٹائیگر پٹودی کی دلہن ہی نہ بن پائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شرمیلا ٹیگور کو سب سے زیادہ پریشانی تو فلم ’این ایوننگ ان پیرس‘ کے اس پوسٹر سے ہو رہی تھی جس میں شرمیلا ٹیگور، فلم کے ہیرو شمی کپور کے عقب میں ہیں۔ شرمیلا ٹیگور کے صرف ہاتھ اور پیر نظر آ رہے ہیں اور تاثر یہی دیا گیا کہ جیسے انہوں نے کسی قسم کا کوئی لباس زیب تن نہیں کیا ہوا۔

شرمیلا ٹیگور کو یہی خوف تھا کہ اگر اس پوسٹر پر ساس صاحبہ کی نظر پڑ گئی تو زندگی کس قدر کٹھن اور دشوار ہو جائے گی۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ بیگم نواب بظاہر تو ماڈرن ہیں اور روایتی قدامت پسند نہیں لیکن ہیں تو ایک ریاست کی نواب ہی نا، کہیں نہ کہیں خاندانی وقار اور جاہ و جلال تو حاوی آہی جائے گا۔

شرمیلا ٹیگور کے ذہن میں ان گنت سوالات جنم لے رہے تھے اور پھر وہ خود ہی ان کے جوابات بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس کشمکش میں رات گزر رہی تھی اور وہ جانتی تھیں کہ اگلی صبح ساس صاحبہ بمبئی میں ہوں گی۔ اسی ادھیڑپن میں انہوں نے ڈرائیور کو طلب کیا۔ جو رات کے اس پہر آنکھیں ملتا ہوا شرمیلا ٹیگور کے سامنے کھڑا تھا۔

شرمیلا ٹیگور اس وقت بمبئی کے کارمائیکل روڈ پر رہتی تھیں جس کے آس پاس ان کی بہت جلد آنے والی ’این ایوننگ ان پیرس‘ کے ہوشربا انداز کے پوسٹرز بھی سجے تھے۔

ڈرائیور کو حکم دیا گیا کہ گھر کے اطراف میں جتنے بھی پوسٹر لگے ہیں ان کا ہر صورت میں صفایا کیا جائے۔ یہ حکم اضطرابی کیفیت میں دیا گیا تھا جسے آنکھ بند کر کے ڈرائیور نے پورا کرنے کے لیے دوڑیں لگا دیں۔

شرمیلا ٹیگور کوجب چند گھنٹوں بعد ڈرائیور نے بتادیا کہ ان کے فرمان کے مطابق کام کر دیا گیا ہے تب جا کر انہوں نے نیند کی وادی میں کھونے کا فیصلہ کیا۔

اگلے دن نواب بیگم آئیں تو شرمیلا ٹیگور نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ شادی کے بعد شرمیلا ٹیگور کی یہ فلم ساس نے بھی دیکھی لیکن انہیں اس فلم کے کسی بھی منظر پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شرمیلا ٹیگور نے اپنی رہائش گاہ کے اطراف سے تو پوسٹرز ہٹوا دیے تھے لیکن وہ اس قدر بھولی، سادہ اور انجان تھیں کہ یہ سوچ نہیں پائیں کہ ہوائی اڈے سے آتے ہوئے کئی مقامات پر کہیں نہ کہیں تو پوسٹرز لگے ہی ہوں گے۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ساس صاحبہ کی ان پر نگاہ نہ پڑی ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ