کیا مصباح الحق ہی پاکستان کے نئے ہیڈ کوچ ہیں؟

اپنے کرئیر کے آخری ٹیسٹ میچ تک مصباح کی پہچان ایک خاموش طبع اور سنجیدہ کپتان کی رہی جو صرف ضرورت کے تحت بولتے اور بولنے سے پہلے کئی بار سوچتے کہ یہاں کیا بولنا ہے۔

بورڈ کی کرکٹ کمیٹی میں گیارہ ماہ سے ہونے کے باوجود مصباح کبھی کرکٹ معاملات میں نہیں بولے۔  (اے ایف پی)

 اس صدی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے وقار یونس ٹیم کے کپتان تھے اور سارے سپر اسٹار ٹیم میں کھیل رہے تھے کہ اچانک کچھ کھلاڑیوں سے کپتان کی کھٹ پٹ ہوئیی اور دو تین بڑے ستارے آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے دست بردار ہو گئے، اور اچانک کچھ نئے کھلاڑی طلب کرلیے گئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل کی وجہ سے یہ سیریز عرب امارات میں کھیلی جارہی تھی۔   

مصباح الحق بھی انہی نئے کھلاڑیوں میں سے ایک تھے جنہیں طلب کیا گیا تھا۔ اگرچہ مصباح الحق نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کرچکے تھے لیکن ان کو کھیلنے کے مواقع مستقلاً نہیں مل رہے تھے۔ دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے مصباح الحق کا کرئیر 2007 کے T20 ورلڈ کپ تک گومگو کیفیت کا شکار تھا، کبھی کھلا لیا اور کبھی نہیں کھلایا۔ خود مصباح کی اپنی کارکردگی بھی ایسی نہ تھی جسے بہت اچھا کہا جا سکے لیکن 2007 کے ورلڈکپ فائنل میچ سے وہ شہرت کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستان میچ ہارنے کے باوجود دنیا سے مصباح کو روشناس کرا گیا۔   

پاکستان ٹیم کا مستقل رکن ہونے کے باوجود 2010 کی پاکستان انگلینڈ سیریز میں وہ شامل نہ تھے۔ شاید یہیں سے ان کی قسمت نے یاوری شروع کی جب سلمان بٹ کی کپتانی سٹہ بازی کی نظرہوئی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی نظر کپتانی کے لیے مصباح پر پڑی۔ اگرچہ یونس خان موجود تھے لیکن بورڈ  سے ان کے اختلافات کے باعث مصباح ہی پہلی اور آخری پسند بن گئے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ مصباح خود اتنے بڑے بیٹسمین نہیں رہے کہ انہیں کوئی بڑی ٹیسٹ رینکنگ مل سکتی لیکن قسمت کے دھنی مصباح کو یونس خان، اظہر علی اور اسد شفیق جیسے قابل اعتماد کھلاڑی میسّر رہے جنہوں نے متعدد مواقع پر ٹیم کی جیت کے لیے راہ ہموارکی۔ اپنے کرئیر کے آخری ٹیسٹ میچ تک مصباح کی پہچان ایک خاموش طبع اور سنجیدہ کپتان کی رہی جو صرف ضرورت کے تحت بولتے اور بولنے سے پہلے کئی بار سوچتے کہ یہاں کیا بولنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بورڈ بھی ان سے خوش تھا اور میڈیا بھی۔   

مکی آرتھر کے جانے کے بعد مصباح کوچ کے عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو بہت قریب سے دیکھنے والے مصباح یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں وہی ٹیم میں باقی رہتا ہے جو بورڈ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے اور چپ چاپ اپنا کام کرتا رہے اسی لیے بورڈ کی کرکٹ کمیٹی میں گیارہ ماہ سے ہونے کے باوجود مصباح کبھی کرکٹ معاملات میں نہیں بولے۔  

بورڈ کو ایسے ہی لوگ چاہئیں اور مصباح اس کے لیے تیار ہیں۔ عوامی ردعمل اور کرکٹ کے پنڈتوں کی تنقید کو قسطوں میں دیکھنے کے لیے بورڈ ان کو پہلے کنڈیشن کیمپ کے نگران کے طور پر لایا ہے اور اگلے مرحلے میں انہیں دو سیریز کے لیے کوچ بنایا جائے گا۔ سلیکشن کے معاملات بھی انھی کے نام سے کیے جائیں گے یعنی ٹیم منتخب بورڈ خود کرے گا اور اس کا اعلان مصباح کریں گے۔

پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان کا اعزاز رکھنے والے مصباح الحق کے لیے یہ ذمہ داری کسی کانٹوں کے بستر سے کم نہیں۔ شاید یہ اننگ وہ لمبی نہ کھیل سکیں کیونکہ ٹیم کے سربراہ تو وہ اب بھی رہیں گے لیکن گراؤنڈ سے باہر ٹیم کا حال یہ ہے کہ افغانستان بھی شاید انہیں شکست دے دے۔ گذشتہ ورلڈ کپ میں کوریج کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ لیکن آج پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہارجیت کی پرواہ نہیں کیونکہ 72 سال کے بعد اب بورڈ کو پتہ چلا ہے کہ یہاں تو کرکٹ کا نظام ہی غلط ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ