صوابی: ’دھمکی آمیز خطوط‘، ڈاکیے سمیت چھ افراد شامل تفتیش

ضلع صوابی کے گاؤں ڈاگئی میں بیک وقت 18 گھروں ایک ہی طرح کے ٹائپ شدہ خطوط بذریعہ ڈاک بھیجے گئے ہیں، جن میں سلام کے بعد عرض کیا گیا کہ اپنا تمام سونا اور پیسہ بینک سے نکلوا کر گھر منتقل کر دیں۔

دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد متعلقہ گھرانوں نے جرگہ بٹھا کر متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ملوث عناصر کو بےنقاب کرکے ان کا مقابلہ کریں گے ( کریڈٹ اصلاحی جرگہ)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں ڈاگئی میں بیک وقت 18 گھروں کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس نے لفافہ بند خطوط کو پشاور کی فارنزک لیب بھجوا دیا ہے جبکہ ڈاکیے سمیت چھ مشتبہ افراد کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔

تھانہ کالو خان کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) ہارون خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خطوط پر موجود انگلیوں کے نشانات کی تفصیلات ملنے کا انتظار ہے، جس کے بعد ملوث افراد تک رسائی آسان ہوجائے گی۔

دھمکی آمیز خطوط بھیجے جانے کے اس واقعے کے حوالے سے 13 جولائی کو متعلقہ تھانے میں روزنامچہ درج کیا گیا تھا، جس کی نقل انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے۔

روزنامچے کے مطابق تحصیل رزڑ کے گاؤں ڈاگئی میں بیک وقت 18 گھروں کو ایک ہی طرح کے ٹائپ شدہ خطوط بذریعہ ڈاک بھیجے گئے، جن میں سلام کے بعد عرض کیا گیا کہ گذشتہ دنوں جس گھر میں چوری کی واردات ہوئی تھی، وہ ہم نے ہی کی تھی، اگلا نمبر آپ کا ہے۔ اپنا تمام سونا اور پیسہ بینک سے نکلوا کر گھر منتقل کر دیں، بصورت دیگر آپ کو جان سے مار دیا جائے گا۔

اس واقعے کے بعد متعلقہ گھرانوں نے جرگہ بٹھا کر متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ملوث عناصر کو بےنقاب کرکے ان کا مقابلہ کریں گے۔

18 گھرانوں میں شامل ڈاگئی اصلاحی جرگہ کے صدر کشور زمان بھی ہیں، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر آج وہ خاموش ہوئے تو کل کو یہ ایک معمول بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس متاثرہ افراد کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے جبکہ گاؤں کے بڑے بوڑھے اور اصلاحی جرگے کے اراکین اب تک دو جرگے کر چکے ہیں، جن میں متعلقہ معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔

دوسری جانب ایس ایچ او ہارون خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ واقعے کی انکوائری کے دوران انہیں کچھ ’عجیب نکات‘ ملے ہیں، جس کے بعد انہوں نے ڈاک خانے کے عملے اور ڈاکیے کو بھی شامل تفتیش کر لیا ہے۔

بقول ہارون خان: ’یہاں ہمیشہ سے ڈاک خانے کا طریقہ کار یوں رہا ہے کہ لیٹر باکس سے خطوط نکال کر  پہلے ضلع مردان کے بڑے ڈاک خانے بھیجے جاتے ہیں، جہاں ان پر ایک مہر ثبت کرنے کے بعد ہی دوبارہ اس گاؤں کے ڈاک خانے بھیجا جاتا ہے، جہاں سے خطوط لفافے پر درج پتے پر ارسال کیے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایس ایچ او کے مطابق: ’اس واقعے میں پرانے طریقہ کار اور اصول کو نہیں اپنایا گیا بلکہ خطوط براہ راست ڈاکیے نے لیٹر باکس سے مردان کی بجائے گاؤں ڈاگئی کے ڈاک خانے پہنچا دیے۔

’مردان کے ڈاک خانے سے پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ ان کو سرے سے کوئی خط موصول ہی نہیں ہوئے، لہذا اب ڈاکیے اور پوسٹ آفس کے سربراہ کو شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔‘

ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ انکوائری جاری ہے اور گاؤں میں ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ یہ بھتہ خوری یا عسکریت پسندی کا شاخسانہ ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’تحصیل رزڑ میں شامل دیہاتوں میں اصلاحی جرگے کا نظام کافی مضبوط ہے، جس میں شامل اراکین منشیات و دیگر معاشرتی مسائل کے خلاف عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں اور زیادہ تر خطوط جرگے کے اراکین کو ہی گئے ہیں۔‘

ایس ایچ او ہارون خان نے بتایا کہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے خطوط کو ٹائپ کیا گیا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ چور جتنا بھی ہوشیار ہو جائے کوئی نشانی ضرور چھوڑ جاتا ہے۔

بقول ایس ایچ او: ’بند لفافوں کو فارنزک لیب میں کھول کر ان پر انگلیوں کے نشان معلوم کرکے مشتبہ افراد کے ساتھ میچ کیا جائے گا۔‘

پولیس کے مطابق اگر ملزمان کی شناخت ہوگئی تو تعزیرات پاکستان کی دفعات 386، 387 اور 389 عائد کی جاسکتی ہیں۔

اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل مطیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو شخص کسی کو جان و مال کی دھمکی دے اور انہیں خوف میں مبتلا کرے، اس کی کم سے کم سزا 10 سال یا زیادہ سے زیادہ عمر قید بھی ہوسکتی ہے جب کہ جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان