دیر سے توپیں ’چوری نہیں بلکہ قانونی طریقے سے منتقل ہوئیں‘

دیر بالا کے ریسٹ ہاؤس میں موجود دو تاریخی توپوں کو سوات منتقل کرنے پر سخت عوامی ردعمل کے جواب میں انتظامیہ نے وضاحت کی ہے۔

ماضی میں دونوں توپیں دیر بالا کے پناہ کوٹ ریسٹ ہاوس میں موجود تھیں (اظہار اللہ/ انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا سے تقسیم ہند سے پہلے کی دو قدیم توپوں کو سوات منتقل کر دیا گیا ہے جس کی عوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔

گذشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر صارفین دیر بالا کے تاریخی اثاثوں کی دوسرے ضلعے منتقلی کو عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

ضلع دیر بالا برصغیر کی تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کی دوسری سینکڑوں آزاد ریاستوں کی طرح خود مختیار ریاستِ ’دیر‘ کا حصہ تھا، آخرالذکر کو 1969 میں پاکستان میں ضم کر لیا گیا اور 1996 میں دو انتظامی اکائیوں یعنی دیر بالا (اپر دیر) اور دیر پایاں (لوور دیر)، میں تقسیم کر دیا گیا جو اب مالاکنڈ ڈویژن کا حصہ ہیں۔

ضلع دیر بالا میں واقع پناہ کوٹ ریسٹ ہاوس میں موجود دو تاریخی توپوں کو کچھ دن قبل دیر بالا سے تقریبا 200 کلومیٹر دور ضلع سوات (جو مالاکنڈ ڈویژن کا ہی ایک ضلع ہے) کے صدر مقام سیدو شریف میں کمشنر ہاوس کی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر دیر بالا اکمل خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر کے دوران دیر بالا کا پناہ کوٹ ریسٹ ہاوس 2010 سے فوج کے زیر استعمال رہنے کے بعد چند ماہ قبل ہی واپس ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ ریسٹ ہاوس کی ملکیت سے متعلق نواب آف دیر کے داماد اورنگزیب خان نے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے، جو عدالت میں زیر سماعت ہے۔ 

اکمل خٹک نے بتایا کہ پناہ کوٹ ریسٹ ہاوس کی توپیں صوبائی محکمہ داخلہ کی اجازت سے سیدو شریف میں کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کے دفاتر منتقل کی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان آرمز رولز 2014 کے تحت شہریوں کو توپوں جیسے اسلحے کی ملکیت رکھنے کی ممانعت ہے اور مذکورہ اشیا صوبائی یا وفاقی حکومت کی اجازت سے سرکاری دفاتر میں ہی رکھی جا سکتی ہیں۔   

 

اکمل خٹک نے تاریخی توپوں کی سیدو شریف منتقلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کمشنر پورے ڈویژن کی نمائندگی کرتا ہے اور کمشنر مالاکنڈ پوری ڈویژن کے نمائندہ ہیں اور دیر بالا اسی ڈویژن کا حصہ ہے۔
 
ان کے بقول: ’ریاست سوات میں بھی اسی طرح کی توپیں موجود تھیں، جنہیں اب کمشنر ملاکنڈ کے دفاتر میں رکھا گیا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ مذکورہ ریسٹ ہاوس قومی ورثہ ہے، اس لیے محکمہ آرکیالوجی اس ریسٹ کو اپنے قبضے میں لے کر اس کی نگرانی کرے اور اس پر کسی نجی شخص کی ملکیت کے دعوے کو مسترد کیا جائے۔

صوبائی محکمہ داخلہ نے ڈپٹی کمشنر اپر دیر کے نام 12 دسمبر کے ایک مراسلے میں مذکورہ توپوں کو قبضے میں لینے کی ہدایت کی گئی ہےِ تاہم ان سوات میں کشمنر کے دفاتر متنقلی کا ذکر موجود نہیں ہے۔ 

مراسلے میں کے مطابق 90 کی دہائی میں اس ریسٹ ہاوس کو حکومت نے سرکاری ریسٹ ہاوس قرار دیا تھا اور بعد میں یہ ڈپٹی کمشنر دیر بالا کی رہائش گاہ کے طور بھی استعمال ہوتا تھا۔

 تاہم مراسلے کے مطابق بعد میں نواب آف دیر کے داماد اورنگزیب نے یہ ریسٹ ہاوس نواب کے خاندان سے خریدا اور اس میں رکھی گئی دو توپوں کا ڈپٹی کشمنر دفتر کے لائسنس حاصل کیا۔

واضح رہے کہ 2014 کے اسلحے سے متعلق قوانین کے تحت کوئی شہری توپ جیسا بڑے اسلحے کی ملکیت نہیں رکھ سکتا۔

 مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟ 

دیر قامی پاثون (دیر قومی موومنٹ) کے سربراہ ملک جہان عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذکورہ  توپیں ریاست دیر کا تاریخی اثاثہ ہیں اور انہیں دیر کی حدود سے باہر لے جانا عوامی جذبات کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ان توپوں کو اسلحے کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ محض ریسٹ ہاوس میں رکھا گیا تھا جو تاریخ اور آثار قدیمہ کا حصہ ہیں۔

ان کے بقول: ’اسی لیے دیر کی عوام ان توپوں کو دوبارہ دیر منتقل کرکے رہیں گے۔‘

ریسٹ ہاوس کی ملکیت کے دعویدار اور نواب آف دیر کے داماد اورنگزیب خان سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کی جانب سے موقف بھیجنے پر اس رپورٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

دیر کی تاریخ

دیر کی حدود افغانسان کے ساتھ بن شاہی کے مقام سے ملنے کے علاوہ چترال اور سوات کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے جریدوں میں فضل الرحمان اور فضل الحق کے شائع شدہ مقالوں کے مطابق دیر کے نام کے حوالے سے مختلف آرا موجود ہیں۔

مقالے میں درج ہے کہ دیر مختلف تہذیبوں کا گڑھ رہا اور ماضی میں اس علاقے کو گورائے، یاغستان، بلورستان اور مساگا کے ناموں سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک مورخ کے مطابق دیر کا نام پہلی مرتبہ بدھ مت تہذیب کے اس علاقے میں آمد کے بعد سامنے آیا جس کے معنی ہیں ’خانقاہیں۔‘

 

یہ نام اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ دیر کے دریائے پنجکوڑہ کے دونوں جانب اس زمانے میں بدھ مت کی خانقاہیں موجود تھیں۔
 
اس علاقے کو کسی زمانے میں کافرستان بھی کہا جاتا تھا کیوں کہ مقالے کے مطابق 10 سے 15 ہجری تک یہاں پر ’کافروں‘ کی سلطنت قائم تھی جو اس وقت دیر کے علاقے کوہستان میں رہائش پذیر تھے اور بعد میں یوسفزئی قبیلے نے اس علاقے پر قبضہ کرکے اس کا نام دیر رکھا۔

 ان کے مطابق دیر فارسی زبان کے لفظ ’دیر‘ سے نکلا ہے جس کی معنی ہیں ’مشکل رسائی‘ ہے۔ کیوں کہ یہ دور دراز علاقہ تھا اور یہاں تک رسائی مشکل تھی۔

مورخین کے مطابق دیر کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہاں پر کسی زمانے میں ڈریونینز(دراوڑی) اور آرینز (آریائی) آباد تھے۔

برصغیر میں دیگر سینکڑوں آزاد ریاستوں کی طرح دیر بھی ایک آزاد ریاست تھی اور تقسیم ہند کے وقت ریاست دیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔

آزاد ریاست دیر کی حیثیت 1969 میں ختم کر دی گئی اور نواب شاہ جہان خان کو ان کے بیٹے سمیت گرفتار کر کے لاہور میں نظر بند کیا گیا جب کہ ان کے بڑے بیٹے نواب شاہ خسرو کو نواب بنایا گیا۔

تاہم نئے نواب کے ساتھ ایک پولیٹیکل ایجنٹ بھی تعینات کیا گیا۔

الحاق کی شرائط میں یہ شرط شامل تھی کہ یہاں کوئی ٹیکس نہیں ہو گا اور یہاں کے وسائل پر عوام کا حق ہو گا۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان