اپر دیر: لکڑی کے برتنوں میں کھانے کا رواج آج بھی مقبول

لکڑی سے برتن بنانے والے وزیر محمد کہتے ہیں کہ ’لکڑی کے برتن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جراثیم نہیں ہوتے جبکہ اس میں کھانے کا مزا بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘

خیبرپختونخوا کے ضلع اپر دیر کے سیاحتی مقام لام چڑ کے قریب گرکوہی کے مقام پر ایک ندی کے کنارے لگی ٹربائن کی مدد سے لکڑی سے برتن تیار کیے جاتے ہیں۔

اس علاقے کے رہائشی قاری وزیر محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لکڑی سے برتن تیار کرنے کا یہ فن انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے جبکہ ان کے والد نے اپنے استاد کے انتقال کے بعد اس کام کا آغاز کیا تھا۔

قاری وزیر محمد نے بتایا: ’اب ہم تینوں بھائیوں نے اس ہنر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہمارے علاوہ علاقے میں کوئی اور لکڑی سے برتن تیار نہیں کرتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ برتن اخروٹ کی لکڑی، توت اور کیکر کی لکڑی سے تیار کیے جاتے ہیں، جن میں پلیٹیں، چاول کھانے کے لیے برتن جسے پرات کہتے ہیں، سالن رکھنے کے لیے ڈونگے وغیرہ شامل ہیں۔

بقول وزیر محمد: ’لکڑی سے ہم ڈنر سیٹ بھی تیار کرتے ہیں جس میں چھ عدد پلیٹیں، دو عدد ڈونگے اور دوعدد چاولوں کے لیے بڑی پلیٹیں شامل ہوتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ایک ہفتے میں لکڑی سے بننے والے تین ڈنر سیٹ تیار ہوجاتے ہیں اور انہیں پشاور، اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد کے علاوہ بیرون ملک سعودی عرب، یورپ اور امریکہ سے بھی آرڈر موصول ہوتے ہیں۔

وزیر محمد نے بتایا کہ وہ ماہانہ 26 ہزار تک کے برتن فروخت کرلیتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اب مہنگائی کی وجہ سے انہوں نے ریٹ بڑھا دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لکڑی کے برتنوں کے ایک سیٹ کی قیمت ساڑھے 12 ہزار روپے اور چاول کی ایک پرات کی قیمت 1500 روپے ہے، جبکہ لکڑی سے بنے ہوئے ڈونگے کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر ہے اور ایک پلیٹ تین سو روپے میں دیتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’لکڑی کے برتن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جراثیم نہیں ہوتے جبکہ اس میں کھانے کا مزا بھی زیادہ ہوتا ہے، اس وجہ سے لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور دور دارازعلاقوں سے ہمیں آرڈرز آجاتے ہیں۔‘

وزیر محمد نے بتایا کہ انہوں نے ندی کے کنارے ایک ٹربائن، جسے مقامی زبان میں ’صرخ‘ کہتے ہیں، لگائی ہے جو پانی کے پریشر سے چلتی ہے اور اس کے ذریعے برتن تیار کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہم شہر یا گاؤں میں اس وجہ سے کام نہیں کرتے کہ وہاں بجلی خرچ ہوتی ہے اور بجلی کے بل کا خرچہ ہم نہیں پورا کر سکتے، اس وجہ سے ندی کے کنارے صرخ لگایا۔ یہاں پر ہمیں سہولتیں میسر ہیں جبکہ نزدیک کھیتوں میں لکڑی بھی مل جاتی ہے۔‘

(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان