ایمازون کے جنگلات میں بھیانک آگ

برازیل کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سپیس ریسرچ  (آئی این پی ای) کے مطابق اس  سال جنوری سے اگست کے دوران ایماوزن کے جنگلات میں 72 ہزار مرتبہ آگ کے شعلے بھڑک چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ان واقعات میں اضافہ دراصل جنگلات کی زمین کو غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے، آبادکاری اور جانور پالنے کے کوششوں کی وجہ سے جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔

امریکہ  کا سب سے بڑا شہر ساؤپولو اس وقت تاریکی میں گھر گیا جب ایمازون کے جنگلوں میں لگی آگ نے عین دوپہر میں پورے شہر کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ برازیل کے ساحلی شہر کے رہائشیوں نے سوموار کو دوپہر تین بجے دن کو رات میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ یہ صورت حال ایک گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہی۔ ایک عینی شاہد کے مطابق یہ آسمانی آفت کی طرح اچانک آئی ہے۔

سوشل میڈیا پہ پریشان شہریوں نے تصویریں پوسٹ کی جن میں شہر کی فضا مکمل طور پر سیاہ نظر آرہی تھی۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا:’ روز حساب  آچکا ہے‘۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتحال جنوبی امریکہ کے وسیع جنگلات میں لگنے والی آگ کی کی وجہ سے ہے جن کو قابل کاشت  بنانے کے لیے جان بوجھ کر جلایا جاتا ہے۔

مقامی ماہر موسمیات نے گلوبل ٹی وی نیٹ ورک کو بتایا: ’ یہ دھواں بہت بڑے پیمانے پر لگی آگ کا ہے جو رندونیا اور بولیویا کی ریاستوں میں کئی روز سے لگی ہوئی ہے۔ درجہ حرارت میں کمی کے باعث دھویں کا رخ ساؤپاؤلو کی جانب مڑ گیا۔‘

یہ بلیک آؤٹ ایسے وقت میں ہوا جب اعدادوشمار کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ ایمازون رین فاریسٹس میں اس سال آگ لگنے کے ریکارڈ واقعات ہوئے ہیں۔

برازیل کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سپیس ریسرچ  (آئی این پی ای) کے مطابق اس  سال جنوری سے اگست کے دوران ایماوزن کے جنگلات میں 72 ہزار مرتبہ آگ کے شعلے بھڑک چکے ہیں۔ یہ اعداد وشمار 2013 میں ریکارڈ کے مرتب ہونے کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 کے  سال میں گذشتہ کئی برسوں کے انہی مہینوں کی نسبت  یہ 83 فیصد اضافہ ہے۔

برازیل میں اس موسم کے دوران آگ لگنے کے واقعات غیر معمولی نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان واقعات میں اضافہ دراصل جنگلات کی زمین کو غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے، آبادکاری اور جانور پالنے کے کوششوں کی وجہ سے جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔

آئی این پی ای کے تحقیق کار البرٹو سیتزر کا کہنا ہے کہ:’ خشک موسم آگ کے جلنے اور اس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن آگ لگانا انسانی فعل ہے ایسا حادثاتی طور پر یا جان بوجھ کر کیا جا سکتا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ برازیل میں ایک سڑک کے کنارے تک پھیل چکی ہے۔

ایمازون کے جنگلات زمین پر ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم طور پر دیکھے جاتے ہیں کیونکہ یہ زمین پر استعمال ہونے والی بیس فیصد سے زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

یہ دنیا کے سب سے بڑے جنگلات ہیں اس لیے یہ کاربن کی ایک بہت بڑی مقدار کو ذخیرہ کیے رکھتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کی رفتار کو کم کرتا ہے۔ جان بوجھ کر یا حادثاتی طورپر اس کی تباہی ماحول میں موجود کاربن کی مقدار جذب کرنے کی فطری قابلیت میں کمی لاتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود برازیل کے دائیں بازو کے صدر جیر بولسونارو جو ان جنگلات کے وسیع رقبے کو ترقی کے لیے خالی کرنے کے وعدے پر حکومت میں آئے ہیں، انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔

گذشتہ ہفتے ہی جب اس حوالے سے نئے اعدادوشمار جاری کیے جانے تھے انہوں نے آئی این پی ای کے سربراہ کو انہیں اعدادوشمار کے حوالے سے اختلاف پر برخاست کر دیا تھا۔ صدر کے مطابق یہ اعدادوشمار ’جھوٹے ‘ تھے۔ جس کے بعد روئٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے جنگلات کے حوالے سے خدشات کو جھٹلاتے ہوئے یہ کہا کہ کسانوں کو کاشت کاری کے لیے زمین کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ:’ پہلے میں درخت کاٹنے والے مشینی آرے کے نام سے مشہور تھا لیکن اب میں نیرو ہوں جو ایمازون کو آگ لگا رہا ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات