عمران خان کی گرفتاری، نااہلی کے بعد پی ٹی آئی کیسے چلے گی؟

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ان حالات میں کس طرح انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جائیں گے؟ متبادل پارٹی قیادت کس طرح رہنماؤں اور کارکنوں کو منظم کرے گی؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 26 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہو رہے ہیں (اے ایف پی / عامر قریشی)

سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نو مئی کے بعد سے مشکلات کا شکار ہے جبکہ پارٹی چیئرمین عمران خان بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پارٹی کا نظام کس طرح چل رہا ہے اور مشاورت کے لیے رہنما کیسے آپس میں رابطے کر رہے ہیں؟

اس کے علاوہ دیگر سوالات بھی جنم لے چکے ہیں۔ جیسے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ان حالات میں کس طرح انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جائیں گے؟ متبادل پارٹی قیادت کس طرح رہنماؤں اور کارکنوں کو منظم کرے گی؟ تحریک انصاف کس طرح آئندہ عام انتخابات میں اپنی پوزیشن بہتر کرے گی؟

یہ وہ سوال ہیں جو ان دنوں ہر ایک کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔  

ان کے جوابات جاننے کے لیے تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان اور سیاسی تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا گیا۔ 

تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن پرعزم ہیں کہ عمران خان کی رہائی تک پارٹی کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے گا۔ وہ ان مشکل حالات کے باوجود ’عمران خان کی مقبولیت میں اضافے‘ کی وجہ سے مد مقابل سیاسی جماعتوں پر اپنی جماعت کو حاوی سمجھتے ہیں۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کو جتنی بھی شہرت حاصل ہے موجودہ مہنگائی کی وجہ سے حکمران جماعتوں کو جنتی بھی عوامی مخالفت کا سامنا ہو لیکن انتخاب کا میدان سجنے تک کسی کی کامیابی حتمی تسلیم نہیں کی جاسکتی۔

البتہ پی ٹی آئی جن مشکلات سے دوچار ہے اگر ماضی کی مثالیں دیکھی جائیں تو ان کے مطابق اب پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ 

تحریک انصاف چل کیسے رہی ہے؟ 

پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رؤف حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’عمران خان کو جیل میں بند کرنے سے ان کی شہرت کو کم نہیں کیا جاسکتا نہ ہی پارٹی کو توڑا جا سکتا ہے۔ دباؤ ڈال کر چند رہنماؤں کو علیحدہ کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‘ 

انہوں نے کہا: ’کے پی میں بلدیاتی انتخابات تحریک انصاف کے امیدواروں کو جس طرح لوگوں نے ووٹ دیے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے کارکن، ووٹر سپورٹر پہلے سے زیادہ مضبوط کھڑے ہیں۔ ہمارے کارکنوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی کیسے چل رہی ہے وہ بس عمران خان کے ساتھ ہیں اور جو عمران خان کے نام پر میدان میں آئے گا اس کا ساتھ دیں گے۔‘

رؤف حسن کے بقول: ’عمران خان کی گرفتاری سے پہلے ہم نے پلان بی تیار کر لیا تھا کہ کارکنوں کو کس طرح منظم رکھنا ہے۔ جو کارکن آزاد ہیں ان سے مشاورت کا بھی ایک خفیہ طریقہ کار موجود ہے ہم جب چاہییں رابطہ کر کستے ہیں۔ جہاں تک سوال متبادل قیادت کا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارے سب کارکنوں اور رہنماؤں کو اندازہ ہے کہ ہمیں کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس لیے جو بھی عمران خان کی جانب سے نامزد ہوگا رہنما اور کارکن ان کی ہدایت پر عمل کریں گے۔‘

ان کے بقول: ’الیکشن کمیشن کی جانب سے ہدایت پر انٹرا پارٹی الیکشن کی پوری تیاری ہے اور ہم یہ قانونی شرط پوری کرنے کی حکمت عملے بنا چکے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے اور ہمارے خلاف کارروائیاں ہونگی ہماری حکمت عملی میں بھی اس کے مطابق تبدیلیاں آتی رہیں گی۔ ہمیں مشکلات ضرور ہیں لیکن ہمارے کارکنوں اور رہنماؤں کے حوصلے پہلے سے بھی زیادہ بلند ہیں۔ ہم ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنے کی تیاری کر چکے ہیں لہذا تحریک انصاف اپنے منشور کے مطابق آگے بڑھتی رہے گی۔‘ 

اس سے قبل پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا: ’پارٹی کے قائد صرف عمران خان ہیں، وہی رہیں گے ان کی قیادت میں ہم سب مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں سے خوف زدہ ہونے والے نہیں ہیں۔‘ 

شاہ محمود قریشی کے بقول: ’جو ٹکٹ واپس کرے گا وہاں سے وکلا کو ٹکٹ جاری ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی ٹکٹ لینے والے پہلے سے زیادہ ہونگے مگر پارٹی کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑا ہونے والوں کو پہلے ترجیح دی جائے گی۔‘ 

مشکل صورت حال سے پی ٹی آئی نکل پائے گی؟ 

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’ماضی کو دیکھیں تو پاکستان میں کسی پارٹی قیادت کے جانے سے پارٹی کی شہرت کم نہیں کی جاسکی۔ بھٹو کو پھانسی دی گی، بے نظیر جلا وطن ہوئیں ان کا قتل ہوا لیکن پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اسی طرح نواز شریف کو بار بار جیل میں ڈالا گیا، جلا وطن کیا گیا مگر ان کی پارٹی کو بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ اب تحریک انصاف کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے عمران خان کو عدالت سے سزا ہوچکی نااہل ہوگئے جیل بھیج دیا گیا۔ اس سے ان کی پارٹی کو تو ختم نہیں کیا جاسکتا البتہ نو مئی کے جو واقعات پیش آئے ان لے بعد تحریک انصاف کو ماضی کی نسبت زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘ 

سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بے شک سیاسی قوتوں کو طاقت کے ذریعے نہیں مٹایا جا سکتا لیکن عمران خان کی طرز سیاست نے انہیں زیادہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پہلے اسمبلی سے استعفے، پھر صوبائی حکومتوں کی تحلیل اس کے بعد فوجی تنصیبات پر حملے کسی صورت ان کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان معاملات کا خمیازہ تو انہیں اور ان کی پارٹی کو بھگتنا ہی پڑے گا۔ حالات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں تو تحریک انصاف کو کھلا میدان نہیں مل سکے گا۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’ہمارے ہاں سیاسی روایات ہی ایسی ہیں کہ کسی لیڈر کی زندگی میں اس کا متبادل اس کی پارٹی میں کوئی اور نہیں بن سکتا۔ جس طرح نواز شریف کا متبادل ہمیشہ مرکز شریف ہی رہے ہیں اسی طرح عمران خان کا متبادل بھی وہی رہیں گے چاہے جیل میں ہی بند کیوں نہ ہوں۔ البتہ پارٹی امور چلانے کے لیے عارضی طور پر کسی کو بھی ذمہ داری دے کر کام چلایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مگر تحریک انصاف کو اس معاملے میں بھی الگ ہی مشکل کا سامنا ہے کہ عمران خان نے اپنے علاوہ کسی کو اتنا اختیار دیا ہی نہیں کہ کوئی ان کی غیر موجودگی میں پارٹی کو متحد رکھ سکے اور معاملات چلا سکے۔

’جس طرح نواز شریف کی غیر موجودگی میں شہباز شریف اور مریم نواز موجود تھے۔‘ 

سینیئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کا مطلب صرف عمران خان ہے، ان کے جیل میں بند رہنے سے پارٹی چلانا مشکل ہوگا۔ جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں ہیں کہ عمران کی غیر موجودگی میں شاہ محمود قریشی یا کوئی اور پارٹی چلا سکتا ہے تو یہ دعویٰ غلط ہے۔ عمران خان جب نو مئی کو گرفتار ہوئے اس کے بعد جو ردعمل آیا انہیں یقین ہوگیا کہ انہیں گرفتار کرنا ممکن نہیں ہر بار ایسا ہی ردعمل آئے گا لیکن جب انہیں چند دن پہلے گرفتار کیا گیا تو کوئی ردعمل نہیں آیا۔ لہذا یہ کہنا کہ عمران خان کی پوزیشن ابھی بھی مضبوط ہے درست نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست