صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت نے 2022 کے مقابلے میں رواں سال سیاحوں کی تعداد میں اضافے کا دعویٰ کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا ہے کہ اس تعداد میں سال کے آخر تک مزید اضافہ ہوگا۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ ثقافت و سیاحت اتھارٹی (کے پی سی ٹی اے) کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے پانچ ستمبر تک خیبر پختونخوا کے مختلف سیاحتی مقامات پر مجموعی طور پر ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد سیاح پہنچے، جو پچھلے سال کی نسبت 12 لاکھ کا اضافہ ہے۔
کے پی سی ٹی اے کے ترجمان سعد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے سال مقامی سیاحوں کی کل تعداد 88 لاکھ سے زائد تھی جبکہ رواں سال صرف آٹھ ماہ میں یہ تعداد ایک کروڑ سے اوپر چلی گئی ہے۔
ان کے لیے بھی سیاسی عدم استحکام اور غیرمعمولی مہنگائی کے باوجود سیاحوں کی تعداد میں اضافہ باعث تعجب ہے۔
تاہم بظاہر حوصلہ افزا سرکاری اعدادو شمار کے باوجود سیاحت کی صعنت سے جڑے افراد کاروبار میں بدحالی کا شکایت کر رہے ہیں۔
یہ اعداد وشمار خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کاغان/ناران، چترال زیریں، چترال بالا، گلیات، مالم جبہ اور دیر بالا کے حوالے سے ہیں جہاں اتھارٹی کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق 2022 میں سب سے زیادہ سیاح گلیات گئے، دوسرے نمبر پر کاغان/ناران اور تیسرے نمبر پر سوات کا علاقہ مالم جبہ رہا۔
خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے اعداد وشمار کے ساتھ ملا کر یہ کُل تعداد 8,859,636 رہی۔
سرکاری حکام کے مطابق سب سے زیادہ سیاح پاکستان کے دیگر صوبوں اور شہروں سے آئے۔ غیر ملکیوں کی 2022 میں تعداد تقریباً تین ہزار تھی جبکہ اس سال 2700 سے زائد رہی۔
سیاحت کے فروغ کی اتھارٹی کے مطابق گذشتہ برس اور اس سال بھی غیر ملکی سیاحوں نے خیبر پختونخوا کے کسی بھی دوسرے سیاحتی علاقے کی نسبت زیادہ تر چترال زیریں کا رخ کیا۔
سعد خان نے بتایا کہ ’سیاحوں کی تعداد میں اضافہ موسم گرما اور سرما کے سیزن کے دوران ہی دیکھا جاتا ہے۔ ستمبر کے آخر تک اس تعداد میں بہت کمی آ جاتی ہے، البتہ برف باری کے موسم میں ملک کے کونے کونے سے سیاح دوبارہ امڈنا شروع ہوجاتے ہیں، جو کہ ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔‘
سیاحوں میں اضافہ تصویر کا ایک رخ؟
ایک جانب محکمہ صحت اور مقامی سیاحتی اداروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تحریری ثبوت دیا، وہیں دوسری جانب سوات، چترال، کاغان اور گلیات کے ٹریول گائیڈز نے، جو ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہیں، اس تعداد میں بتدریج کمی کا ذکر کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے ٹوور گائیڈ کلیم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ نزدیک اور کم مہنگا ہونے کے باعث سیاح اب بھی سوات آتے ہیں لیکن 2020 اور اس سے قبل کے مقابلے میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ ’نتیجتاً ہمارا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔‘
کلیم اللہ نے بتایا کہ کرونا وبا سے سیاحت بری طرح متاثر ہوئی تھی لیکن پابندیاں ختم ہونے کے بعد یکدم اضافہ دیکھا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ ’سوات میں دہشت گردی کے دوبارہ پنپنے کی خبریں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اگلے چند مہینوں میں سوات میں سیاحت بالکل ہی ختم ہوجائے گی۔‘
کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹر والے ہی سوات کا رخ کر رہے ہیں جو وہاں سیمینار، ورکشاپ اور تربیتی سیشنز منعقد کرتے ہیں۔
چترال میں پچھلے 17 سال سے بطور ٹریول گائیڈ کام کرنے والے اشفاق ساگر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے علاقے کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ چترال میں دہشت گردی کے خطرات اور نو مئی کے واقعات کے بعد سے سیاحت تنزلی کا شکار ہے۔
’اگرچہ پچھلے سال تک حالات قدرے بہتر تھے اور اس سال بھی ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی ایک تعداد یہاں آئی، لیکن یہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھی۔‘
ساگر کے مطابق: ’2023 میں کیلاش میں چلم جوش اور اچال کی تقریبات کے دوران بھی سیاحوں کی تعداد میں اچھی خاصی کمی دیکھی گئی۔ کئی غیرملکیوں کو چکدرہ کے مقام سے واپس لوٹایا گیا۔ اگرچہ انہیں اپنے ممالک سے بھی خطرات کے سبب منع کیا گیا تھا۔‘
سرکاری ادارے گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان احسن حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گلیات میں رواں سال سیاحت صرف ایلیٹ (اشرفیہ) طبقے تک محدود رہی۔ ہمیں زیادہ تر بڑی بڑی گاڑیاں نظر آئیں جن میں یا تو مالدار طبقہ یا پھر کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ ہوتے ہیں۔ متوسط طبقے نے تو سیاحت تقریباً چھوڑ ہی دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ باوجود ان وجوہات کے گلیات کے لیے عمومی پسندیدگی کے سبب جنوری سے اگست 2023 تک 30 لاکھ سے زائد سیاح آئے جو کہ جنوری 2022 سے دسمبر تک 41 لاکھ کے قریب تعداد تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احسن حمید کے مطابق: ’اس میں یہ عنصر دیکھنا بھی لازمی ہے کہ رواں سال کے اعداد وشمار صرف آٹھ ماہ کے ہیں اور یہ عین ممکن ہے کہ سال کے آخر تک مزید اضافہ 41 لاکھ کی تعداد پر سبقت لے جائے۔‘
کاغان کے ترقیاتی سرکاری ادارے کاغان ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے نائب ڈائریکٹر امین اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسام آباد (بالا کوٹ سے تین کلومیٹر آگے) سے لے کر بابو سر ٹاپ تک کا علاقہ کے ڈی اے کی حدود میں آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ ثقافت وسیاحت اتھارٹی کو اعداد وشمار کا ماہانہ ریکارڈ دراصل کے ڈی اے بھیجتا ہے۔
’حسام آباد گیٹ وے پر گاڑیوں اور سیاحوں کی تعداد دستی طور پر درج کی جاتی ہے کیونکہ فی الحال پاکستان میں اس تعداد کو شمار کرنے کے لیے کوئی مشین متعارف نہیں کروائی گئی ہے۔‘
امین اللہ خان نے مزید کہا کہ انہوں نے گاڑیوں اور سیاحوں کی تعداد شمار کرنے کا ایک فارمولا بنا رکھا ہے۔ ’سیڈان اور جیپ میں زیادہ سے زیادہ پانچ جبکہ کوسٹرز، کوچز وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ افراد کی تعداد 10 رکھی۔ اس لحاظ سے سیاحوں اور گاڑیوں کی کل تعداد نکل آتی ہے۔ یہ فارمولا ہے۔‘
علاقے سے باہر کی گاڑی نمبر پلیٹ، ماڈل اور دیگر علامات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں کاغان میں چلنے والی مقامی گاڑیاں مختلف ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کے ڈی اے کا مزید کہنا تھا کہ 2023 کا آغاز اس قدر اچھا رہا کہ ان کا ادارہ توقع کر رہا تھا کہ یہ گراف ستمبر تک اونچا رہے گا۔ ’تاہم گلگت میں خراب حالات کی وجہ سے یہ گراف ماہ اگست سے ہی نیچے جانا شروع ہوگیا۔‘
بیانات اور اعداد وشمار میں تضاد کیوں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے سرکاری محکمے خیبرپختونخوا ثقافت وکلچر اتھارٹی (کے پی سی ٹی اے) سے استفسار کیا کہ ان کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں سال سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹریول گائیڈز کے مطابق اس تعداد میں کمی آئی ہے تو جواب میں ادارے کے میڈیا ترجمان سعد خان نے بتایا کہ ان کا (سرکاری) ڈیٹا وسیع پیمانے پر ہوتا ہے لہذا یہ کسی ٹریول گائیڈ، ہوٹل یا ایک مقامی ادارے کے اعداد وشمار سے مختلف ہوتا ہے۔
’دراصل یہ ادارے یا گائیڈز صرف ان سیاحوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں جو ان کے ذاتی رابطوں، پیکجز اور ایسوسی ایشنز کے ذریعے آتے ہیں، لہذا ان کا کاروبار ضرور متاثر ہوا ہوگا لیکن اس محدود ڈیٹا یا معلومات پر ہم فیصلہ نہیں کرسکتے۔‘
سعد خان نے کہا کہ سیاحوں کی تعداد مختلف وجوہات کی بنا پر کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ 2022 میں ’ٹوررازم پولیس‘ متعارف کرنے کے بعد ایک بڑی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔
’مری واقعے کے وقت لوگوں نے دیکھا کہ اس سے کہیں بڑی تعداد گلیات میں ہونے کے باوجود کوئی مسئلہ نہیں بنا۔ وجہ خیبر پختونخوا میں حکومتی سطح پر سیاحت کا منظم اور فعال کردار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ٹوررازم پولیس کی وجہ سے رفتہ رفتہ سیاحوں کا خوف ختم ہوگیا اور وہ خود کو محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔
’بروقت ایڈوائزری، بروقت سیاحوں کی مدد کے لیے ٹورازم پولیس کی موجودگی، خستہ حال راستوں اور شاہراہوں کی تعمیر، کیمپنگ پاڈز، نئے سیاحتی مقامات کی دریافت اور ایسے کئی دیگر عوامل ہیں جو سیاحوں کو خیبر پختونخوا کھینچ لاتے ہیں۔‘
’شوہر کی ٹریننگ تھی ہم بھی ساتھ چلے گئے‘
انڈپینڈنٹ اردو نے نہ صرف سیاحوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ جاننے کی کوشش کی بلکہ یہ بھی کہ کس نے کس غرض سے ان علاقوں کا رخ کیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی شاہین (فرضی نام) نے حال ہی میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گلیات کا سفر کیا۔ اس جگہ کے انتخاب کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’دراصل یہ میرا انتخاب نہیں تھا۔ میرے شوہر کی نتھیاگلی میں ایک ٹریننگ تھی، اس وجہ سے ہمیں بھی بوریت دور کرنے اور موسم کا لطف اٹھانے کا موقع ملا۔‘
محمد شکیب نامی نوجوان نے سیاحت سے متعلق ایک فیس بک گروپ میں لکھا کہ وہ اگست میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کالام گئے۔ ’گروپ میں جانے سے قیام وطعام اور پیٹرول کا خرچہ باآسانی برداشت کیا۔ کالام میں ایک ہوٹل کے بیسمنٹ میں صرف 1500 روپے پر ایک رات کا کرایہ دینا پڑا۔‘
ملازمت کے سلسلے میں حال ہی میں اسلام آباد منتقل ہونے والی روبینہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اسلام آباد شفٹ ہونے میں زیادہ خوشی شمالی علاقہ جات کے قریب ہونے کی بھی تھی، لیکن پیٹرول مہنگا ہوگیا ہے اور مہنگائی کے سبب پچھلے سالوں کی نسبت فی کس سفری اخراجات دوگنا ہوگئے ہیں۔ سیاحت کا کیسے سوچیں۔‘
وجوہات
ماہرین کے بیانات کی روشنی میں سیاحوں کی تعداد میں اضافے کی وجوہات کچھ یوں ہو سکتی ہیں۔
1۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فضائی کمپنیوں کے تین گنا مہنگے ٹکٹس کے باعث پاکستانی اشرافیہ طبقے نے بھی شمالی علاقہ جات جانے کو ترجیح دی۔
2۔ زیادہ تر سیاح گروپ کی صورت میں گئے، جو کہ سستا پڑتا ہے۔ ان گروپوں کو مختلف سیاحتی کمپنیاں پیکج بنا کر دیتی ہیں۔
3۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے سیاحت کو فروغ ملا ہے اور سیاحتی گروپس اور دلکش مناظر پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتی ہیں۔
تاہم اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’غیرملکی کرنسی‘ ملک میں لانے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ملک میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری اولین ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔