انجیکشن سے بینائی جانے کی تحقیق: دس رکنی نئی کمیٹی تشکیل 

ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ایک انسپیکشن ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے جو ان جگہوں کا معائنہ کرے گی جہاں یہ ٹیکہ چھوٹی سرنجوں میں پیک کیا جاتا تھا اور اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا وہ جگہ موزوں تھی یا نہیں۔

23 مارچ 2020 کو اسلام آباد کی ایک فارمیسی میں صارفین دوائیں لینے کے لیے موجود (فاروق نعیم / اے ایف پی)

نگران وزیر صحت برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر جمال ناصر کے مطابق اے واسٹن انجیکشن سے متاثر 68 مریض اب تک رپورٹ ہو چکے ہیں جب کہ اے واسٹن انجیکشن سے بینائی جانے کے واقعے پر نئی دس رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ 

نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے نوٹیفیکشن جاری کر دیا ہے جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری، سیکریٹری قانون، سپیشل سیکریٹری صحت کمیٹی سمیت کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر اسد اسلم شامل ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود نوٹفیکیشن پر تاریخ 24 ستمبر درج ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ’اس کمیٹی کے سربراہ نگران وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم ہوں گے جبکہ وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر کمیٹی کے شریک کنوینر ہوں گے۔‘

اس کمیٹی کے ذریعے آنکھوں کے سرجنز میں اے واسٹن کے استعمال کے طریقہ کار پر رپورٹ مرتب کی جائے گی جبکہ اے واسٹن انجیکشن کی مینوفیکچرنگ، ڈسٹری بیوشن، سپلائی کے تمام مراحل بھی جانچے جائیں گے۔ نوٹفیکیشن کے مطابق کمیٹی اے واسٹن کی مارکیٹ تک رسائی میں خامیوں پر رپورٹ تیار کرے گی نیز مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے پلان بھی طلب کیا گیا ہے۔ 

یہ دس رکنی تحقیقاتی کمیٹی اگلے سات روز میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس واقعے کی مکمل  تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔ 

اے واسٹن کے آف لیبل استعمال سے متاثر ہونے والے مریضوں میں ملتان سے 19 مریض سامنے آئے، 25 مریضوں کا تعلق لاہور سے ہے، پانچ مریض بہاولپور جبکہ رحیم یار خان، قصور، صادق آباد اور خانیوال سے چار چار مریض رپورٹ ہوئے، نیز تین مریض میاں چنوں سے تاحال رپورٹ ہوئے۔

وزارت صحت کی جانب سے اے واسٹن انجیکشن سے متاثرہ مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے ویب پورٹل بھی بنادیا گیا ہے جب کہ مریضوں کے علاج کے لیے  راولپنڈی، لاہور اور ملتان کے ہسپتالوں میں خصوصی بستر مختص کیے گئے ہیں۔ 

منگل کو وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم اور وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر جمال ناصر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’وزیراعلیٰ کی تشکیل دی گئی کمیٹی کو مزید فعال بنانے کے لیے اس میں مائیکرو بائیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر سدرہ، آفتھمالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر معین اور فرانزک میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر اللہ رکھا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کمیٹی نے ایک انسپیکشن ٹیم تشکیل دی ہے جو ان جگہوں کا معائنہ کرے گی جہاں یہ ٹیکہ چھوٹی سرنجوں میں پیک کیا جاتا تھا اور اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا وہ جگہ موزوں تھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ اس انجیکشن کی لاٹ کی سویٹزر لینڈ سے روانگی، شپمنٹ، آف لوڈنگ اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے دوران ٹمپریچر کا بھی ریکارڈ طلب کیا جائے گا۔‘

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ’اس انجیکشن کے انکھوں میں استعمال کے دوران گڈ کلینیکل پریکٹسز کا خیال نہیں رکھا گیا۔‘

’اس کے لیے مقامی زبان میں مریض کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے ذمہ دار افراد کے لیے زیرو ٹالرنس ہوگی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘

اسی کانفرنس میں نگران وزیر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈاکٹر جمال ناصر کا کہنا تھا کہ آنکھوں کے علاج کے لیے اس ٹیکے کا استعمال غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکہ بنیادی طور پر آنتوں کے کینسر کے علاج کے لیے ہے اور شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کے علاج کے لیے اس کا استعمال آف لیبل یوز کے زمرے میں آتا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ٹیکہ نہ تو جعلی ہے اور نہ ہی مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ ان مریضوں کو اس ٹیکے کا ری ایکشن بھی نہیں ہوا۔ کینسر کے مریضوں کے لیے یہ ٹیکہ 100 ملی گرام کی پیکنگ میں فروخت کیا جاتا ہے، شوگر کے مریضوں کو اس کی 1.2 ملی گرام ڈوز دی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض افراد اسے چھوٹی چھوٹی سرنجوں میں بھر کر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے لیے درجہ حرارت دو سے اٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونا ضروری ہے۔ پیکنگ کھلنے کے بعد اسے چھ گھنٹے کے اندر مریض کو لگانا ضروری ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’درجہ حرارت میں کمی بیشی کی وجہ سے ٹیکے کی کیمیکل کمپوزیشن خراب ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال ٹیکے کی ٹرانسپورٹیشن کے دوران ٹمپریچر کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے کا امکان ہے۔‘

’غیر قانونی طور پر یہ ٹیکہ چھوٹی سرنجوں میں فروخت کرنے والے ملزموں کی گرفتاری کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کو اس کام میں ملوث ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا پتہ چلانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔  ٹیکے کے نقصانات سامنے آنے پر پنجاب کے اٹھ شہروں میں 11 ڈرگ انسپکٹروں کو معطل کر کے ان کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔‘

اے واسٹن سے متاثرہ مریض ’جن کی بینائی واپس آنا مشکل ہے‘

صادق آباد کی ممتاز اختر 65 برس کی ہیں اور ایک لمبے عرصے سے ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ممتاز کا شمار بھی انہیں مریضوں میں ہوتا ہے جو اے واسٹن انجیکشن لگنے کے بعد بینائی متاثر ہونے کی صورت میں ہستالوں میں پہنچے۔ 

ممتاز کے داماد عدنان شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ممتاز اس وقت لاہور کے جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور انہیں جمعے کو صادق آباد سے لاہور منتقل کیا گیا تھا۔ عدنان کے مطابق وہ گذشتہ ہفتے صادق آباد میں ایک آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس اپنی خوشدامن ممتاز اختر کو لے کر گئے تھے کیونکہ ان کی آنکھوں میں شوگر کی وجہ سے مسئلہ ہو رہا تھا۔ 

’ڈاکٹر نے انہیں اے واسٹن انجیکشن لگوانے کا کہا اور ملتان کے ایک ڈیلر کا نمبر دیا جو انہیں انجیکشن مہیا کرے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدنان کے مطابق ممتاز پہلے بھی یہ ٹیکے تین مرتبہ لگوا چکی تھیں لیکن انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ وہ ٹیکے بھی ملتان کے ہی ایک ڈیلر سے منگوائے گئے تھے۔ 

عدنان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ٹیکے ایک بس سروس کے ذریعے انہیں ملے جو کہ ایک باکس میں بند تھے اور اس کے اندر برف کے پیکس بھی موجود تھے لیکن اس بار ڈیلر نے انجیکشن ڈاکٹر کے کلینک پر ہی ڈؒلیور کیا۔ ہر بار ہمیں ایک انجیکشن 2500 روپے میں دیا گیا۔‘

عدنان نے بتایا کہ ’انجیکشن لگوانے کے بعد ممتاز گھر آ گئیں لیکن چند گھنٹوں کے بعد ہی ان کی آںکھوں میں سوزش شروع ہوئی اور وہ لال ہو گئیں اور انہوں نے کم دکھائی دینے کی شکایت کی۔ ہم نے نجی ہسپتال سے رابطہ کیا تو انہوں نے اگلے روز آںے کا کہا۔‘

’اگلی صبح میری ساس نے  شکایت کی کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا جبکہ ان کی آنکھ کی پتلی بھی کالے سے آدھی سفید ہو چکی تھی۔ ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے دو مختلف انجیکشن لگائے اور ڈراپس ڈالے جس سے پتلی کا رنگ مزید سفید ہونے سے رک گیا۔‘

’جمعے کو ہم پھر اسی ڈاکٹر کے پاس گئے تو آنکھ ٹھیک نہیں ہوئی اور ڈاکٹر نے ملتان کے ایک نجی ہسپتال جا کر ایمرجنسی میں آںکھ کا آپریشن کروانے کا مشورہ دیا۔‘

’میری ساس چونکہ ایک غریب گھر سے ہیں، ان کے شوہر بھی معذور ہیں تو ان کے لیے نجی پسپتال کا خرچہ اٹھانا ممکن نہ تھا اس لیے ہم انہیں لاہور کے جناح ہسپتال لے آئے جہاں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی بینائی جا چکی ہے اور اس کا واپس آنا مشکل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان