انڈیا میں پولیس کا صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن

انڈیا میں پولیس نے منگل کو کم از کم آٹھ صحافیوں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جس سے ایک ایسے ملک میں حکومتی کریک ڈاؤن پر تشویش مزید بڑھ گئی ہے جہاں میڈیا کی آزادی پہلے ہی قدغن کا شکار ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں 7 جولائی، 2014 کو صحافی وزیر ریلوے کی پریس کانفرنس کی کوریج کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

انڈیا میں پولیس نے دہلی اور ممبئی میں منگل کو کم از کم آٹھ صحافیوں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جس سے ایک ایسے ملک میں حکومتی کریک ڈاؤن پر تشویش مزید بڑھ گئی ہے جہاں میڈیا پہلے ہی قدغن کا شکار ہے۔

اے ایف پی کے مطابق جن صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے ان کا تعلق انگریزی زبان کی نیوز ویب سائٹ ’نیوز کلک‘ سے بتایا جا رہا ہے۔ انڈین حکام نے 2021 میں اس ویب سائٹ کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ تنظیم غیر ملکی فنڈنگ حاصل کر رہی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی اگست کی رپورٹ کے مطابق ’نیوز کلک‘ کو امریکی کروڑ پتی بزنس مین نیویل رائے سنگھم نے مالی اعانت فراہم کی تھی جن پر الزام ہے کہ وہ چینی حکومت کے ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں، تاہم سنگھم اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔

نیوز کلک سے منسلک صحافی اریتری داس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ پولیس صبح کے وقت ان کے گھر گھس آئی، ان سے ان کی رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور ان کا لیپ ٹاپ، فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈسک ضبط کر کے ساتھ لے گئے۔

اریتری داس نے یہ بھی کہا کہ چھاپے کا تعلق نیوز کلک کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج کیے گئے ایک مقدمہ سے ہے جو کہ ایک سخت انسداد دہشت گردی کا قانون ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔

ممبئی پریس کلب نے ایک بیان میں چھاپوں پر اپنی ’گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’نیوز کلک سے وابستہ متعدد صحافیوں کو چھاپوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

پریس کلب نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ ’وہ ان صحافیوں کے خلاف ہراساں کرنے کی ٹارگٹ مہم کو روکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافیوں کے علاوہ معروف مورخ اور سماجی کارکن سہیل ہاشمی کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔

سہیل ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وارنٹ، جو پولیس نے مجھے ہچکچاتے ہوئے دکھایا، کے مطابق میری رہائش گاہ پر چھاپہ نیوز کلک کی تحقیقات سے متعلق تھا۔‘

سہیل ہاشمی کو اپنا لیپ ٹاپ، فون اور ہارڈ ڈسک پولیس کے حوالے کرنا پڑی جس میں ان کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موجود تحریریں شامل تھیں۔

انہوں نے اس چھاپے کو ’دھمکی اور آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف کریک ڈاؤن‘ قرار دیا۔

یہ کارروائی دارالحکومت نئی دہلی اور ممبئی میں کی گئی جس پر پولیس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

انڈیا کے وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے چھاپوں کے بارے میں پوچھنے پر صحافیوں کو بتایا کہ ’مجھے ان کا جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

نشریاتی ادرے این ڈی ٹی وی کے مطابق انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ’اگر کسی نے کچھ غلط کام کیا ہے تو تحقیقاتی ایجنسیاں جانچ پڑتال کرنے کے لیے آزاد ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا