گھروں اور دفاتر پر چھاپے: کشمیر میں آزادی صحافت تنگ

نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے بدھ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک صحافی اور دو سرگرم کارکنوں کے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارے جس سے کشمیر میں معلومات اور  آزادی صحافت پر کریک ڈاؤن کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تین اکتوبر 2019 کو کشمیری صحافی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

بھارت کے ٹاپ تحقیقاتی ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے بدھ کو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں دس مقامات پر چھاپے مارے جن میں ایک صحافی اور دو معروف سماجی کارکنان کے گھر اور دفاتر شامل ہیں۔

اس اقدام سے کشمیر میں معلومات اور  آزادی صحافت پر کریک ڈاؤن کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک بیان میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کہا کہ اس نے کشمیر میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے رپورٹر پروز بخاری کے گھر، اور سرگرم کارکن خرم پرویز اور پروینا آہنگر، اخبار ’گریٹر کشمیر‘ اور ایک غیر سرکاری ادارے کے دفاتر کی تلاشی لی جس میں انہوں نے ’کئی مشکوک دستاویزات اور ایلکٹرک آلات‘ کو تحویل میں لیا۔

ایجنسی کے مطابق وہ ان ’نان پرافٹ اور خیراتی ٹرسٹس‘ کی تحقیق کر رہی ہے جو چندہ جمع کر کے اسے ’علیحدگی پسند سرگرمیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔‘

چھاپوں سے واقف ایک پولیس اہلکار کے مطابق صحافی پرویز بخاری اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے خرم پرویز سے ٹیلی فونز، لیپ ٹاپس اور سٹورج آلات قبضے میں لیے گئے۔ پولیس اہلکار نے اے پی سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی محکمانہ اجازت نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خرم پرویز کے ادارے جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے کشمیر میں تعینات ہزاروں بھارتی فوجیوں کی جانب سے بربریت کے بارے میں کئی رپورٹس چھاپی ہیں۔ اس نے بھارتی حکومت کی جانب سے ان فوجیوں کو دیے گئے وسیع اختیارات پر بھی روشنی ڈالی ہے جس سے، ادارے کے مطابق، فوجیوں کے استثنیٰ ہونے اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو فروغ ملا ہے۔

کشمیر کی سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ خرم پرویز اور ’گریٹر کشمیر‘ کے دفاتر پر یہ چھاپے ’بھارتی حکومت کے آزادی اظہار اور اختلاف پر کریک ڈاؤن کی ایک اور مثال ہیں۔‘

یہ چھاپے ایک ایسے وقت میں مارے گئے ہیں جب کچھ دن پہلے ہے حکام نے انگریزی اخبار ’کشمیر ٹائمز‘ کے دفتر کو سیل کیا جس پر صحافیوں اور عالمی میڈیا واچ ڈاگز کی جانب سے کڑی تنقید بھی کی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اخبار کا دفتر انتظامی وجوہات پر سیل کیا گیا مگر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد آزاد پریس کا گلا کھونٹنا ہے۔

بھارتی حکومت کے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے بعد سے کشمیر میں بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔

منگل کو بھارت نے نئے قانون نافذ کیے جن سے اس کا کوئی بھی شہری اس خطے میں زمین خرید سکے گا۔ اس قدم نے کشمیری عوام اور کارکنوں کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے جو اسے بھارت کی جانب سے اس مسلم اکثریت خطے کو آبادکاری کی طرف دھکیلنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ گذشتہ سال تک بھارتی شہری کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے تھے۔

یہ قوانین بھارتی فوج کو کسی بھی علاقے کو کشمیری علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشنل اور ٹریننگ کے لیے ’سٹراٹیجک‘ قرار دینے کے اختیار بھی دیتے ہیں۔

بدھ کو خطے کے مرکزی آزادی پسند اتحاد نے ان نئے قوانین کو رد کیا اور 31 اکتوبر کو سٹرائک کی کال دی۔ جبکہ بھارت نواز سیاست دانوں نے بھی اس پر کشمیر کی زمین کو ’فروخت کے لیے پیش کرنے‘ کا الزام لگایا۔  

حکومت کا اصرار ہے کہ اس فیصلے کا مقصد خطے میں امن اور ترقی کا فروغ دینا ہے۔

اگست 2019 سے بھارتی حکومت میں یہاں بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ان سے میڈیا کی آزادی کو ختم کر دیا ہے۔

کئی صحافیوں کو گرفتار، تشدد کا نشانہ، ہراساں اور کبھی تو نئے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک نئے متنازع میڈیا قانون نے حکومت کو آزاد رپورٹنگ کو سینسر کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔

کشمیر ایڈیٹرز گلڈ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ اسے ’کشمیر میں صحافی ہونے کی بڑھتی قیمت‘ پر تشویش ہے اور وہ امید کرتا ہے کہ میڈیا کو ’بغیر مسائل اور رکاوٹوں کے کام کرنے دیا جائے گا۔‘

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اگست میں کہا تھا کہ ’کشمیر میں بھارتی حکام کی آزادی صحافت کی خلاف ورزی ایک جمہوریت کو زیب نہیں دیتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا